قدرتی آفت اورانسانی عذاب

مرشد آج غم زدہ ہے۔ وہ غموں سے نڈھال ہے ۔ایک ساتھ تین غموں کا قصہ چھیڑرہاہے۔ پہلا غم یہ ہے کہ ازغور گولین میں سیلاب آیا۔ باکھہ نامی گاؤں کو نقصان پہنچا۔ دوسرا غم یہ ہے کہ حکوت ٹس سے مس نہ ہوئی۔تیسرا غم یہ ہے کہ لوگوں نے مصیبت زدہ لوگوں کو پانچ کلوآٹا،۲ کلوگھی اور ۲ کلو چینی تھما کر خوب تصویریں لیں۔ ان تصویروں کو اخبارات میں شائع کیاا ور سوشل میڈیا پر پھیلا کر ان لوگوں کی تذلیل کی جو مصیبت زدہ تھے۔ میں نے مرشد سے کہا تین غم اور بھی ہیں۔ بولا وہ کون سے غم ہیں؟میں نے کہا ۸۰ ہزار کی آبادی کا واٹر سپلائی متاثر ہوا۔ قومی گرڈ میں ۱۰۸ میگاواٹ بجلی ڈالنے والا بجلی گھر متاثر ہوا۔۳۰ ہزار کی آبادی کو سائفن ایریگیشن کے ذریعے فصلوں کا پانی فراہم کرنے والی دو بڑی سکیمیں متاثر ہوئیں۔ یہ تین بڑے غم ہیں۔ ان سکیموں پر ۳۵ ارب روپے خرچ ہوئے تھے سب سیلاب کی نذر ہوا۔ مرشد نے پوری بات سننے کے بعد کہا کہ سرکار اور غیر سرکاری تنظیموں کا معاملہ ہے،”انگار جانے لوہار جانے”۔میں نے کہا تین غم اور بھی ہیں۔ایک غم یہ ہے کہ وزیر اعظم کی بہن علیمہ خان اپنی اولاد کے ساتھ سیلاب کے دن گولین میں پھنس کر رہ گئی۔ وہ سیر سپاٹے کے لیے آئی تھی۔ وزیر اعظم نے اپنی بہن کے لیے ہیلی کاپٹر بھیج دیا مگر گولین کے سیلاب زدہ لوگوں کو ایک آنہ،پائی، پیسہ بھی نہیں دیا۔ ان کی جگہ نوازشریف ،زداری یا مشرف ہوتاتو اپنی بہن کی جان بچانے کے ساتھ ساتھ سیلاب زدہ عوام کی بحالی ،سڑکوں ،پلوں ،بجلی گھروں اور واٹرسپلائی کی سکیموں کی بحالی کےلیے بھی خصوصی گرانٹ دے دیتا۔ علاقے کا دورہ کرتا۔ نقصانات کا جائزہ لیتا اور فوری احکامات جاری کرتا۔ مرشد نے میر بات کا برا منایا اور کہنےلگا۔وزیر اعظم اتنا فارغ بندہ نہیں ہوتا۔ میں نے کہا اسے اپنی بہن کو بچانے کا خیال آیا ،گولین اور چترال کےعوام کا خیال کیوں نہیں آیا؟ یہ غم اور دکھ کی بات ہے۔ مرشدنے فیض کا مصرعہ پڑھا”اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کےسوا”۔ میں نے کہا اور کونسا دکھ تمہیں بے چین رکھتا ہے؟مرشد بولا اخبارات میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(NDMA)اور پراویشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی (PDMA)کے نام بار بار آتے ہیں۔یہ دو اتھارٹیاں کیا کرتی ہیں؟ میں نے ضمیر جعفری کا شعر پڑھا۔   ؎

میں کچھ بھی نہیں کرتا وہ آرام کرتے ہیں

میں اپنا کام کرتاہوں وہ اپنا کام کرتے ہیں

مرشد نے کہا یہ کوئی کام نہ ہوا۔ میں نے اپنی موبائل پر جاکر اکتوبر ۲۰۰۵ کے زلزلے کی تاریخ نکالتا ہوں اور مرشد کو بتاتا ہوں کہ NDMAاور PDMAلوگوں کی خدمت کےلیے نہیں بلکہ زلزلہ زدگان کے نام پرآنے والی امداد پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے بنائے گیے تھے۔ ۲۰۰۵ کے زلزلے کے بعد پوری دنیا سے امداد آئی ۔یہ امدادضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ضلع ناظم کے ذریعے تقسیم ہونی چاہئیے تھی۔راولپنڈی میں تین دنوں تک اس پر غور ہوا۔ تین دنوں کے بعد فیصلہ ہوا کہ یہ امداد مقامی انتظامیہ کونہیں دی جائیگی۔ اسلام آباد میں ایک اتھارٹی بنائی جائے گی اور امداد اس اتھارٹی کے حوالے کی جائیگی تاکہ گاؤں کی سطح پر لے جاکر امداد کو ضائع نہ کیا جاسکے۔چنانچہ راتوں رات NDMAبنائی گئی ۔پھر PDMAبنائی گئی۔ امداد کو اسلام آباد میں روک لیا گیا۔ نیو بالاکوٹ سٹی نہ بن سکی۔ متاثرین منہ دیکھتے رہ گیے۔ ۱۲ آفیسروں کے مفاد کو ۷۰ لاکھ متاثرین کے مفاد پر ترجیح دی گئی۔ ڈپٹی کمشنر اور ضلع ناظم باہر سے آنے والی امداد متاثرین تک پہنچاتے تھے۔NDMA۸۷ لاکھ روپے ہیلی کاپٹر پر خرچ کرکے پانچ کلوآٹااور دوکلو چینی متاثرین کو دیتے ہیں۔ وہ گلے سڑھے اور کیڑوں سےبھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ متاثرین ان تھیلو ں کو دریا میں پھینکتے ہیں ۔ جہاں پل کی ضرورت ہوتی ہے ہیلی کاپٹر وہاں نیسلے کے پانی کی بوتلیں اتارتا ہے۔ جہاں پینے کا پانی دستیاب نہیں وہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے خچروں کے کمبل اتارے جاتے ہیں ۔مرشد میری بات سمجھ جاتاہے۔ وہ کہتا ہے پھر تو NDMAخود ڈیزاسٹر ہے ۔میں کہتاہوں ہاں ! ایسا ڈیزاسٹرجسے آپ قدرتی آفت کے بعد آنے والا انسانی عذاب کہہ سکتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email