خشک سالی کا خطرہ

مرشد نے آج ہمیں اپنا کتب خانہ دکھایا۔کتب خانے کے ایک کونے میں کمپیوٹر کا گوشہ بنایا گیا ہے۔اس میں سی ڈیز رکھے ہیں۔ڈی وی ڈیز کا ذخیرہ ہے۔یہاں وائی فائی اور یوٹیوٹ کی سہولت بھی ہے۔ڈی ایس ایل ٹھیک ٹھاک کام کرتا ہے۔ہم نے زیادہ وقت اس گوشے میں گزارا۔یہ گوشہ عجائبات کا گوشہ ہے۔مرشد نے کہا ان عجائبات میں سے ایک عجوبہ یہ ہے کہ50 سال پہلے محکمہ موسمیات کے ماہرین نے خشک سالی کی پیشگوئی کی تھی۔آج یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے۔بادل آتے ہیں۔برستے نہیں۔بارش نہیں ہوتی ،برف نہیں پڑتی ،زمین خشک ،پہاڑ اور اطراف خشک ،گویا خشک سالی نے ڈیرے ڈال دئیے۔ہم نے کہا مرشد!یہ تیری عمر کی باتیں نہیں ہیں۔تم ان چیزوں پر کیوں سوچتے ہو۔مرشد کہتا ہے ان باتوں کا عمر سے کیا تعلق ہے۔1960 میں ایک شحص40 سال کی عمر میں جو چیزیں دیکھتا ،پڑھتا اور سنتا تھا۔میری نسل کے نوجوان 10سال کی عمر میں ان باتوں اور چیز وں کو انٹر نیٹ پر دیکھتے اور سنتے ہیں۔میرے باپ نے ناشناس،سردار علی ٹکر اور مہدی حسن کے گانے40 سال کی عمر میں سنے تھے۔میں ۵ سال کی عمر میں ناشناس کو سنا ہے۔مہدی حسن کو سنا ہے۔منی بیگم کو سنا ہے۔ملکہ پکھراج کو سنا ہے۔ہم نے سوچا تو مرشد کی بات درست نکلی ،وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے اور مرشد وقت کے ساتھ ساتھ رہا ہے۔ مرشد کے پاس تصو یروں کا البم ہے۔البم میں فروری 1951کی تصویریں ہیں۔تصویروں میں چترال کا بازار برف سے ڈھکا ہوا ہے۔مرشد کے پاس دسمبر1941کی تصویر ہے۔تصویر میں شاہی قلعہ کا صحن دکھایا گیا ہے۔یہاں ۲ فٹ برف پڑا ہے۔ ایک ایسی تصویر بھی ہے جس میں اکتوبر کے مہینے میں لوگ چھتو ں سے ڈیڑھ فٹ برف صاف کر رہے۔مرشد کہتا ہے میں نے2010سے اب تک ۸ سالوں میں اتنی برف نہ دسمبر کے مہینے میں دیکھی نہ جنوری اور فروری کے مہینے میں دیکھی۔میں پرانی تصویریں دیکھ کر حیران ہوتا ہے کہ آج بارش کیوں نہیں ہوتی ،آج کل برف کیوں نہیں پڑتی ؟ ہم نے مرشد سے پوچھا”کیا تمھاری لائیبریری میں موسمیاتی تفسیر،کلا ئمیٹ چینج اور عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ پر کو ئی مواد ہے؟مرشد نے پھر یو ٹیوب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ جامِ جم ہے۔جمشید کا پیالہ ہے۔پوری دنیا اس میں نظر آتی ہے۔ ایک دستاویزی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں کے اندر تا جکستان، نیپال ،بھارت،پاکستان اور افغانستان کے پہاڑی علاقوں میں گلیشیر ٹوٹ رہے ہیں۔گلیشیر سے بننے والے جھیل کا پانی سیلاب کی صورت میں آکر آبادی ، گاوں،کھیت، باغات اور مکانات کو بہا کر لے جاتا ہے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔جسے گزشتہ 20سالوں سے فلموں میں دکھایا جارہا ہے۔ ہم نے کہا۔مرشد ٹھیک کہتا ہے۔ چترال کے خوبصورت گاؤں،بریپ،سنوغر، بونی،ریشن، بروز اور ایون کو ان سیلابوں سے بڑا نقصان ہوا۔ جغور،اْرسون،شوغور اور چوینج میں بھی سیلابوں نے تباہی مچائی۔سیلابوں کا خطرہ اب بھی ہے۔مرشد کہتا ہے کہ برف کے وقت پر پہاڑوں کے اوپر برف نہیں پڑتی۔گرمیوں میں تھوڑی بارش ہو جائے تو سیلاب اْمڈ آتا ہے۔ہم نے کہا مرشد! تم ٹھیک کہتے ہو ،یہ گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔ہم نے جنگلات کو ختم کر دیا۔پہاڑوں کے سروں سے ان کی چادر چھین لی۔گاڑیوں،کارخانوں اور چمینوں کے دھوئیں نے آسمان سے باتیں کیں۔اوزون کی تہہ میں سوراخ نہیں بلکہ چھید ہوئے۔یہ ہمارے اپنے کرتوت ہیں۔مرشد اس پرخوش ہوا۔ خوش ہو کر اْس نے اخبار کا تراشہ ہمارے سامنے رکھا اس میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ایک دفعہ باپ بیٹا مل کر شہر سے گاؤں میں آے،۶ سال کا بیٹا پہلی بار گاؤں میں آیا تھا۔ایک ہفتہ گزارنے کے بعد باپ نے بیٹے سے پوچھا بولو بیٹا تم نے شہر اور گاوں میں کیا فرق دیکھا؟ بیٹے نے معصومیت سے کہا ہمارے شہر میں آسمان پر دھواں ہوتا ہے۔یہاں گاؤں کے آسمان پر خوبصورت تارے ہوتے ہیں۔ ہم نے کہا مرشد !سیدھی سی بات ہے۔اْن کے شہر میں آسمان پر جو دھواں ہے وہ خشک سالی کی سب سے بڑا سبب ہے۔

Print Friendly, PDF & Email