بے باک کی بے باکیاں

زیل نیوز کا تازہ پرچہ آیا تو مُرشد نے پہلے اپنا نام ڈھونڈا۔اپنا نام ڈھونڈنے کے بعد اس کی نظر بے باک پر بھی پڑی ۔بے باک کی بے باکیوں میں مُرشد کو آدھا گلاس خالی نظر آیا ۔یہ وہ گلاس نہیں جس کے بارے میں فیض نے شکوہ کیا ہے ؂

کچھ محتسبوں کی خلوت میں ،کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمترجاتی ہے

یہ وہ گلاس ہے جو منفی سوچ اور مثبت سوچ کو اجاگر کرتا ہے۔اس کا عکس ساغر صدیقی کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے ۔

ہم کو ملے ہیں قریہ مہتاب میں گڑھے
ان کو تو پتھروں میں بھی رعنائیاں ملیں

بے باکی میں کافی حدوں کو پار کرکے بے باک صاحب نے احتشامی تلوار سے پدرسری معاشرے کے اقدار پر وار کیا ہے اور یہ ایساوار ہے جو کبھی خطا نہیں جاتا ۔ "عورت زبان اور معاشرہ”ایسا آئینہ ہے جو گہنایا ہوا ہے۔اس میں زبان کا نصف،عورت کا ایک چوتھائی اور معاشرے کا ایک تہائی حصہ نظر آتاہے۔باقی سب دھندلایا دھندلایا سالگتاہے۔مُرشد کہتا ہے کہ آدھا گلاس اور آدھا آئینہ بھرا ہواہے۔عورت کو میر ژوری،حور،پری اور ملکہ کے جو خطابات دئیے گئے ہیں وہ بھی معاشرے نے زبان کی وساطت سے دئیے،بلکہ روشنی،پھول ، کلی،خوشبو،موتی ،نغمہ جیسے نام بھی اسی معاشرے کی زبان پر عورت کے لیے وقف ہیں۔ امین الرحمان چغتائی کا شعر ہے ؂

ٹومبوکی،ووری،گمبوری،روشتی،دردانہ،نغمہ
کیاغ دونی لاکھونیان تہ ہمی نامان تانتے

میں نے کہا مُرشد جی!بات یہ ہے کہ معاشرے میں عورت کی مظلومیت کے قصے شیکسپئیر کے زمانے میں بھی زبان زد عام تھے ۔تبھی ان کے ڈرامے کا ایک کردار کہتاہے "مظلومیت رے مظلومیت! تیرا نام عورت ہے۔” مُرشد کہتاہے فریلٹی کا ترجمہ کمزوری کرو،مجبوری کرو یا مظلومیت،ہر حال میں عورت کا چہرہ فریادی نظر آتاہے مگر یہ پورا سچ نہیں،یہ پوری سچائی نہیں۔عورت اُس زمانے میں بھی مرد پر حکومت کرتی تھی آج بھی مرد پر حکومت کرتی ہے۔ وہ کونسا گھر ہے جہاں مرد کی مرضی چلتی ہے۔وہ کونسا کام ہے جو مرد کی مرضی سے ہوتا ہے۔ میں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ۔ امریکی معاشرے میں ڈونلڈٹرمپ کو ہیلری کلنٹن پر ترجیح حاصل ہوئی ،”ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں” مگر دوسری طرف زبان کو ہم لوگ مادری زبان بھی کہتے ہیں۔مرُشد کہتا ہے میں یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ۔زبان کو مادری زبان یا ماں بولی اس لیے کہتے ہیں کہ گھر میں باپ کو بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ماں ہی بولتی ہے۔میں نے کہا مُرشد جی تم ٹیڑھے ہاتھ سے بہت کا سرا پکڑتے ہو،سیدھے ہاتھ سے بات اٹھاؤ۔مُرشد کہتا ہے ہاتھ ٹیڑھا ہو یا سیدھا بات ایک ہی ہے۔وہ مشہور لطیفہ سب نے سنا ہوگا کہ ایک شریر بچے نے باپ سے پوچھا،”ابو مرد کسے کہتے ہیں؟”باپ نے کہاجو حکم چلائے،جس کا حکم مانا جائے،جس کے خوف سے لوگ کانپتے ہوں،جو اپنی ہر بات منوا سکتا ہو،اس کو مرد کہتے ہیں۔باپ کی زبان سے مرد کی یہ تعریف سن کر بچے نے عورت ذات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ۔بچے نے باپ سے کہا ابو! اگر یہ بات ہے تو میں بڑاہوکر” امی "کی طرح مرد بنوں گا۔

Print Friendly, PDF & Email