رستم زمان کا اکھاڑہ

باکسنگ کا دور آنے سے پہلے پہلوانوں کے درمیان کُشتی کے مقابلے ہواکرتے تھے۔ برصغیر کے بڑے شہروں میں پہلوانوں کے اکھاڑے تھے۔ گوجرانوالہ کے اکھاڑے بڑے مشہور تھے اس زمانے میں جو پہلوان سب کو بچھاڑ کر جیت جاتا اس کو رستم زمان کا خطاب دیا جاتا ۔ ڈاکٹر محمد یونس بٹ نے لکھا ہے کہ رستم زمان کا اکھاڑہ گوجرانوالہ میں ہے اس وجہ سے گوجرانوالہ کو پہلوانوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہا ں اکھاڑے کی قدیم روایت اب بھی زندہ ہے ۔

مرشد کو پہلوانی کا بڑا شوق ہے وہ کہتا ہے با کسنگ میں طاقت اور زور کا پتہ نہیں لگتا ہاتھ چلاتے چلاتے مخالف کے ساتھ ہاتھ کیا جاتا ہے۔ طاقت سے زیادہ Trickسے کا م لیا جاتا ہے کُشتی میں طاقت کام آتا ہے اس کھیل کا اپنا مزہ ہے۔ مرشد آگیا تو بہت خوش تھا ، خوشی سے جھوم رہا تھا ۔ میں نے کہا "مرشد تم اتنے خوش ہوضرور کوئی خوش خبری لائے ہو، بتاؤ کون سی ابھی خبر آئی ہے؟” مرشد نے کہا ۔ "رستم زمان کا اکھاڑہ جوگوجرانوالہ میں ہے، خبر آئی ہے کہ بڑا دنگل ہونے جا رہا ہے۔ 14 پہلوانوں کے درمیان کُشتی ہوگی۔ میں جارہا ہوں آپ کو ساتھ لیکر جاؤں گا”۔ یہ سن کر میرا دل باغ باغ ہوا مگر اس خوشخبری کے بعد مُرشد ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ میں نے مرشد کو بُلابھیجا کہ "گوجرانوالہ جانے کی تیاری کرنی ہے تو ہندوکش ایکسپریس میں ایک ہفتہ پہلے ریزرویشن کرنی پڑتی ہے ۔ پر وگرام بناؤ ریزرو یشن کرو ہم وقت پر پہنچ جائینگے”۔ مرشد آیا تو حسب معمول اس کا چہرہ اترا ہوا تھا ۔میں نے کہا۔ ” کب گجرانوالہ جانا ہے”؟ مرشد بولا ۔”کوئی پتہ نہیں تھوڑا سا پھڈا ہو گیا ہے”۔ میں نے پوچھا "کونسا پھڈا”؟ مرشد بولا ۔ "اس سال نیا پہلوان آیا ہے دنیا بھر سےجیت کہ آیا تو اس نے رستم زمان پہلوان کو چیلنچ کیا ۔ رستم زمان نے جیوری سے درخوست کی کہ نئے پہلوان کیساتھ ہم دوپہلوان مل کر کُشتی لڑینگے نئے پہلوان نے مان لیا کہ آجاؤ دونوں کو چاروں شا نے چت نہ گرایا تو میرا نام پہلوان نہیں ہوگا۔ بات معقول نہیں تھی مگر مان لی گئی۔ اس پر رستم زمان نے شہ پا کر دوسرا مطالبہ کیا کہ ہمارے اکھاڑے کا اپنا گروپ ہے ۔گروپ میں 13 پہلوان ہیں سب دنگل اور کُشتی کے ماہر ہیں ہمیں سارے داؤ پیچ آتے ہیں ۔ ہمارا گروپ ملکر نئے پہلوان کا مقابلہ کرنےگا ۔ نئے پہلوان کے سامنےیہ بات رکھی گئی تو اس نے کہا تیرہ کے تیرہ آجاؤ۔ سات اور ملاؤ بیس(20) آجاؤ مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ اب جیوری کا خیا ل تھا کہ نا جائز بات ہے مگر نئے پہلوان نے منظور کیا تو ہمیں بھی منظور ہے۔ جب دنگل کے دن اور وقت کا اعلان ہونے کا انتظار تھا۔ تو رستم زمان نے کہا جیوری کا فرض ہے کہ نئے پہلوان کے ہاتھ پیر باندھ کر پنجرے میں بند کرے،  پھر ہم مقابلہ کرینگے۔ جیوری نے نئے پہلوان کے ہا تھ پاؤں باندھ کر اس کو پنجرے میں ڈالا تو رستم زمان نے اگلا مطالبہ داغ دیا کہ موسم ساز گار نہیں موسم سازگار ہونے کے بعد ہم اکھاڑے میں اتریں گے”۔ بقول غالب؏

سنا تھا غالب کے اڑیں گےپرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر تما شانہ ہوا

مرشد نے اپنی کہانی ختم کی ۔ "تو میں نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا تم برسات کے موسم میں پیدا ہوئے تھے ۔تمھارے نصیب میں کالے بادل کے سوا کچھ نہیں اس لئے ملا غمگین بنے پھرتے ہو۔ ا میر مینائی نے شا ید تمھارے بارے میں ہی کہا تھا ؏

برچھی چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارئے جگر میں ہے

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email