مولابخش

ہمارے پرائمری سکول کی عمارت دو بڑے بڑے کمروں پر مشتمل تھی۔ ایک اساتذہ کی رہائش کے لیے تھا جس کے ایک کونے پر کارپٹ کا ٹکڑا بچھا ہوتا تھا۔ ساتھ ان کی چارپائیاں ہوتی تھیں۔اور ہم میں سے کوئی خوش قسمت ہی اس کے اندر جھانک سکتا تھا۔ دوسرا کمرہ ہم طلباء کے لیے مختص تھا جس کے ایک کونے پر بچوں کی لائی ہوئی سوختنی لکڑیوں کا اسٹاک ہوتا تھا۔ باقی حصے میں بوسیدہ ٹاٹوں پر ہم لوگ چکنی مٹی کی روشنائی میں لت پت چھْٹی کے انتظار میں، کتاب سامنے دھرے کچھ گنگنا رہے ہوتے یا سرکنڈوں کے بنے قلم سے سکول کی دیوار کا پلستر ادھیڑ تے رہتے۔ اساتذہ "مولا بخش” ہاتھ میں لیے آس پاس منڈلاتے، ہمیں پڑھاتے، سمجھاتے، ڈانٹتے رہتے۔ بریک ہوتی تو ایک ادھم مچ جاتا ہر کوئی بستے سے اپنا "لنچ” نکال کر باہر کی طرف لپکتا۔ لنچ ماں کے ہاتھوں کی بنی گیہوں کی چپاتی کے ٹکڑے کا ہوتا۔ باہر چھوٹا سا گراونڈ اور ساتھ کچی سڑک۔۔ سڑک کے ساتھ ایک نالا ہے جس میں کبھی کبھار پانی آتا تھا۔ ہم نالے کے ساتھ تھوڑا دور جا کر نسبتاً صاف پانی سے اپنی پیاس بجھاتے اور واپسی پر کسی غصیلے استاذ کی تیوروں پر اظہار خیال کرتے۔ اس دوران چلتے چلتے لنچ بھی ہوجاتا۔ کچھ منحوس صفت لڑکے خود گھر سے کچھ نہیں لاتے بلکہ دوسروں کے بستوں کی تاک میں رہتے، آنکھ بچا کر غیر کی سوکھی روٹی لے اڑتا۔ بریک میں وہ بے چارہ آہ سر کھینچ کر دوسروں کو چباتے دیکھتا۔ سکول کے ارد گرد کوئی چار دیواری نہیں تھی۔ جب گاڑی کی آواز آتی تو ہم "مولا بخش” سے خوفزدہ سامنے دھری کتاب کی اوٹ سے گاڑی کا دیدار کرتے۔ جو اس دیدار سے محروم رہتا اس کو گاڑی کے رنگ، ڈرئیور،رفتار سمیت معیار ہر چیز کے بارے میں بتا دیتے اور وہ اپنی محرومی پر حسرت و یاس کی تصویر بن کر یہ فسانہ نہایت توجہ سے سنتا اس دوران اگر استاد محترم کی نظر پڑتی تو شامت آجاتی، کمرہ جماعت (پانچ جماعتوں کا ایک کمرہ) "مرمت” کی آواز سے گونج اٹھتا اور سارے شاگرد بت بن کر سب کچھ سہتے اور مجال ہے جو حرف شکایت زبان پر لا تے۔ اس زمانے میں سکولوں میں مار پٹائی عام سی بات تھی، ڈنڈا "مولا بخش” کے نام سے ملقب ہر اچھے برے شاگردکی پنڈلی سے لے کر سر تک کہیں نہ کہیں اپنا دائمی نشان چھوڑ جاتا تھا۔ اساتذہ "مولا بخش” کے استعمال میں بڑے دریا دلی سے کام لیتے تھے۔ کسی درخت سے تازہ تازہ کاٹا ہوا لچکدار اور جھول دار "مولا بخش” سے تواضع کے بعد تو کمر پر نیل پڑ جاتے تھے اور شاگرد اسے تشدد سمجھ کر گھر آکر والدین کو دکھاتا تو جواب ملتا ” بیٹا اساتذہ روحانی والدین ہوتے ہیں ان کی مار جہاں پڑتی ہے وہ جگہ قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے محفوظ رہتی ہے” قہرِ درویش برجانِ درویش اگلے دن بچہ کمر پر آڑے ترچھے نیل کے نشان لیے خاک آلود بستے کے ساتھ منہ لٹکائے پھر سکول چلا جاتا۔ زیادہ سزا کھا کھا کر کچھ بچے اتنے ڈھیٹ ہوجاتے تھے کہ سبق یاد کرنے سے زیادہ سزا بھگتنا ان کو آسان معلوم ہوتا تھا۔ وہ خوشی سے سزا کے لیے تیار ہوجاتے مگر بستے کو ہاتھ لگانا ان کے لیے موت سے کم نہ ہوتا۔ ان کے گلابی چہرے تھپڑوں سے اور بھی گلابی ہوجاتے مگر ان کے دل سبق اور کتاب کی طرف نہیں آتے۔ تشدد سے پڑھایا ہوا سبق یاد رہتا ہے مگر کام نہیں آتا۔ کیوں کہ تشدد سے طالب علم کی شخصیت مجروح ہو جاتی ہے۔ اس کی خود اعتمادی جاتی رہتی ہے۔ بہت سارے طالب علم صرف اساتذہ کے رویوں کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد کہتے ہیں۔ میرے کئی ہم جماعت کچھ اساتذہ سے اتنے ڈرتے تھے کہ تنہائی میں آنسو بہایا کرتے تھے۔ کچھ صبح گھر سے سکول کے لیے نکلتے اور آس پاس کی گھنے جنگلوں اور کھیت کھلیانوں کی سیر کرکے دوپہر کو "سکول” سے واپس گھر آجاتے۔ زیادہ تر اساتذہ ننھے شاگردوں کے لیے رول ماڈل ہونے کی بجائے” ڈون ” قسم کا کردار بن جاتے۔ بہت سارے اساتذہ ایسے بھی ہوتے تھے جو” مولا بخش”کے بجائے محبت و پیار سے پڑھانے پر یقین رکھتے تھے شاید وہ اس بات سے واقف تھے کہ

درس ادیب اگر بود زمزمۂ محبتے
جمعہ بہ مکتب آورد طفل گریز پا را

اگر استاذ کے پڑھانے کا انداز محبت کے گیت کی طرح ہو تو شریر اور سکول سے بھاگنے والا بچہ جمعہ (یعنی چھٹی) کے دن بھی سکول آنے پر مجبور ہوگا۔ سزا و جزا دینے میں استاذ کو نہایت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ کیوں کہ بچے کی کردار سازی اور شخصیت سازی، شیشہ سازی جیسا ہے اور سکول کارگہہ شیشہ گراں۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی غفلت کا ارتکاب کیا جائے تو اس کا بچے کے مستقبل پر بے حد بْرا اثر پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ سختی اور سزا میں توازن رکھنا چاہئے۔ جسمانی سزا نہ صرف قانونا منع ہے بلکہ ایک "مولا بخش گزیدہ” بچہ ہمیشہ خوفزدگی، کم ہمتی، جھجک اور شرمیلے پن کا شکار رہتا ہے۔ یوں زندگی میں ترقی کے زینے چھڑنے میں اسے مشکلات پیش آتی ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email