صاحب سے گفتگو

فٹ پاتھ پر پڑی وہ ہلنے جھلنے والی مخلوق انسان ہے صاحب انسان۔۔۔آرے صاحب! آنکھیں کھول کر دیکھیے واقعی میں انسان ہے۔۔۔ تیرا میرا ہم نفس۔۔۔ ہم عصر۔۔۔ کیا ہوا جو ہم مشرب و ہم پیالہ نہیں ، ہم مرتبہ و ہم پلہ نہیں ہے، ہم شکل و ہم نسل نہیں۔۔۔ یہ جو چھیتڑں کی گٹھڑی بن کر سر راہ دبکا ہوا ہے یہ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہے۔۔ جس سیارے میں آپ اور ہم رہتے ہیں وہ بھی اسی سیارے کا ہے۔یہ سیارہ سب کو لے کر محوِ گردش ہے، شاہ کو ،گدا کو، تنکے کو پہاڑ کو، سب کو۔۔۔۔ اور یہی گردش ہے جو کسی کو چھوٹا کرتا ہے کسی کو بڑا۔۔ کسی کو جوان کسی کو بوڑھا۔۔۔ کسی کو قلاش کسی کو عیاش۔۔۔. صاحب! ذرا اپنی نئی نویلی کار کے کالے شیشے اتار کر دیکھیں۔۔اس مخلوق سے اٹھنے والی عفونت آپ کے ذوقِ سلیم پر گران گزرے گی مگر یہ تعفن سرِ راہ پڑی اس گھٹڑی سے نہیں انسانیت سے اْٹھ رہا ہے۔۔ اس کے سرہانے پڑا روٹی کا باسی ٹکڑا تمھارا کتا سونگھ کر چھوڑ دیتا ہے۔ صاحب غور سے سنیے اس کی سانسی ہولے ہولے بد دعا بن کر فضا میں تحلیل ہو رہی ہیں۔ اس فضائے بسیط میں اسی طرح کے لاکھوں انسانوں کی سانسیں کالی رداؤں کی شکل میں عذاب بن کر واپس زمین پر ٹوٹتی ہیں۔ اس کے بدن پر چیونٹیاں رینگ رہی ہیں۔۔ وہ کیڑے مکوڑوں سے مانوس ہے۔۔۔دن کو ایک رسی لے کر دوسروں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔۔۔ مزدوری کے نام پر چند سکے مل جائے تو خوابوں کی بنک میں جمع کر کے رات کو اس فٹ پاتھ پر خود کو مٹی کے حوالے کرتا ہے۔۔۔ درد کی ٹیسیں انگ انگ سے اٹھتی ہیں۔۔۔مگر وہ سو جاتا ہے۔۔۔سونے سے یاد آیا صاحب آپ کی خواب آور گولیاں ختم تو نہیں ہوئیں؟۔۔۔. صاحب! یہ سب کوزہ گر کے تماشے ہیں۔۔۔ خاک کو چاک پہ چڑھاتا ہے۔۔۔ تراشتا خراشتا ہے پھر کسی کو نوازتا ہے کسی سے بے نیازی برتتا ہے۔۔۔ اس کی شہنشاہی ہے۔۔۔ وہ مصور ہے جس کی تصویروں سے کائنات بھری پڑی ہے۔۔اچھی تصویر۔۔سچی تصویر۔۔ بھونڈی تصویر۔۔ کراہت انگیز تصویر۔۔ لیکن تصویریں سب اسی مصور کی ہیں۔۔ ان میں سب سے عجیب تصویر انسان ہی ہے۔۔۔خوبصورت، بد صورت، حساس، منہ پھٹ، گستاخ، خاکسار، تابعدار، نا پائیدار۔۔۔ نا پائیداری و بے ثباتی تو انتہا کی ہے صاحب۔۔ اس لیے چچا غالب نے کہا تھا۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا صاحب! سر راہ پڑی یہ مخلوق بھی اپنے مصور کی شوخیِ تحریر پر شکوہ کناں ہے۔۔ روز مرتا ہے روز جیتا ہے۔۔ لوگوں نے اس کے اوپر سے راستہ بنا لیے۔ یہ ایک نہیں ایسے کروڑوں ہیں جن کے بچے فٹ پاتھ سے لڑھک کر صاحبوں کی کاروں کے نیچے آجاتے ہیں۔۔۔ کچھ ننھی غریب زادیاں ان کی ننگی ہوس کا نشانہ بن کر گندی نالیوں میں پہنچ جاتی ہیں اور پھر ان کی لاشوں پر بھوری گِدھوں کے خوفناک سائے منڈلانے لگتے ہیں۔۔صاحب ان جیسے انسانوں پر دنیا کیوں تنگ ہے۔۔ ان کے منہ کا نوالہ کون ہڑپ کر جاتا ہے؟۔۔۔ ان کے بچوں کے سائبان کون چراتے ہیں؟۔۔۔۔ وہ صبح سے شام تک پسینہ بہا کر بچوں کے لیے صرف دو وقت کا کھانا خریدتا ہے۔۔۔۔ اس کی پھٹی ہوئی ایڑیاں، اس کی اکڑی ہوئی ہاتھ، اس کے کھردرے ہاتھ، ہم سے ہمارے نظام سے ہمارے ملک سے، ہمارے حکمرانوں سے، افسروں سے بہت کچھ سوال کرتی ہیں۔. بڑے بنگلوں میں رہنے والوں سے اس کو گلہ ہے، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاستدانوں سے اس کو شکوہ ہے۔۔ بہت سے گھروں میں کتوں اور بلیوں پر لاکھوں کا خرچہ آتا ہے مگر اس کی آنکھوں میں دیکھنے والا کوئی نہیں۔۔ جن میں غم، درد، اور افلاس کا ایک جہاں آباد ہے۔ صاحب آپ کی بے حساب دولت کہاں سے آتی ہے۔۔؟ حکومت آپ کو یہ شان و شوکت یہ تنخواہ یہ مراعات کس لیے دیتی ہے۔۔۔ کیا اس محروم طبقے کی فکر آپ کے جملہ فرائض میں شامل نہیں؟ صاحب آپ کے ٹومی کی ایک دن کی خوراک اس کے بچوں کے مہینے کے لیے کافی ہے۔۔ صاحب اپنی ضرورت سے زیادہ دولت تو آپ کا حق ہے۔۔ مگر کھربوں ڈالروں سے اندرون و بیرون ملک بنکوں کو بھرنے کے بعد بھی تیرا پیٹ کیوں نہیں بھرتا۔۔ آخر گوشت و پوست کیانسان ہو۔۔۔پتھر یا فولاد کے نہیں ہو۔۔ روح پرواز کر جائے گی تو یہ دولت تمھارے ساتھ قبر میں نہیں آئے گی۔

Print Friendly, PDF & Email