یہ بچہ کس کا بچہ ہے؟

بازار میں ایک چاند جیسے بچے کو دیکھا جو سر راہ بیٹھے جوتے چمکا رہا تھا ۔ میں نزدیک پہنچا تو نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا میں نے ان کی نظروں میں لکھی تحریر پڑھنے کی کوشش کی ۔ تحریر کیا تھی افلاس کی دہائی تھی ۔ غربت کا التماس تھا ۔ شرارت اور معصومیت کی ملی جلی کیفیت تھی ۔ میں سوچنے لگا کہ نجانے وطن عزیز میں کتنے بچے بچپن کی شرارتوں اور مستیوں سے نابلد، پیدا ہوتے ہی غم روزگار  کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں ۔
حالات ان کو اس نہج پر پہنچا دیتے ہیں کہ  گھر بار کی ساری ذمہ داری ان کے معصوم کندھوں پر پڑتی ہے اور وہ افتان و خیزان اپنےاور اپنے کنبے  کا پیٹ پالنے لگ جاتے ہیں ۔
یہ صرف ہمارے شہر کا المیہ نہیں وطن عزیز میں ہر جگہ ننھے محنت کشوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسے کھلنڈرے بچوں کو ہوٹلوں ، دکانوں ، کھیتوں ، ورکشابوں اور بس اڈوں میں کام کاج کرتے ہوئے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔
کئی سال بیت گئے چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے قانون سازی ہوئی ۔ ہر سال دو جون کو بچوں سے مشقت کے خلاف عالمی دن کے طور پر بڑے دھوم سے منایا جاتا ہے ۔ تقریریں ہوتی ہیں ، سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں ۔۔۔۔ مگر ان سیمنارز کے باہر معصوم فرشتے چھاپڑ ی بیچتے نظر آتے ہیں ۔ پاکستان میں سکول جانے کی عمر یعنی پانچ سے پندرہ سال کے لاکھوں بچے معمولی اجرت پر مزدوری کرنے پر مجبور ہیں  اور ان میں روز افزوں اضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔ ظاہری بات ہے اس کی بڑی وجہ غربت ،  بے روزگاری اور جہالت ہے جس کے سد باب میں حکومت ناکام ہو چکی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وضع کردہ قانون پر عمل درآمد کرانا حکومت کے لیے ناممکن ہو گیا  ہے ۔ کیوں کہ جہاں ننھے ہاتھ مشقت میں مصروف ہو  ، جہاں معصوم چہرے محنت و مزدوری کے پسینے سے شرابور ہو وہاں جہد للبقا کا عمل ہو رہاہوتا  ہے ۔ اس کے علاوہ ان قلاش کنبوں کے لیے زندگی کی گاڑی رواں رکھنا ناممکن ہے ۔


بچے قوم کے مستقبل ہوتے ہیں ۔ جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمارے مستقبل کے ان معماروں کی ایک بڑی تعداد ہمیں کوڑے دانوں کے آس پاس منڈلاتی  ، ورکشابوں  میں استاد کی ڈانٹ سہتی ،  بس اڈوں میں مٹھائیاں بیچتی ،  کھیتوں میں کمر توڑ بوجھ اٹھاتی نظر آتی ہے۔ مگر صد حیف ! کہ ہمارے حکمران ، جن کو احساس کی دولت سے عاری پیدا کیا گیا ہے ۔ ان کو یاس و حرماں اور دکھ کے معنی نہیں آتے وہ آہ بے کساں  سے نا واقف ہیں ، زیر دستوں کی مصائب سے نا آشنا ہیں ۔ رخ زرد اور میلے ہاتھوں ، پھٹی آنکھوں کا مطلب ان کو سمجھ نہیں آتا ۔ وہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں ، وہ سونے کاچمچہ منہ میں لے کر آتے ہیں ان کے لیے ہر روز ، روز عید اور ہر شب  ،شب بارات ہوتی ہے ۔ ان کے بچے باہر ملکوں کے بڑی پر شکوہ درسگاہوں میں پڑھنے جاتے ہیں ۔ ان کو محروم بچوں کے ان آنسووں کا کیا علم جو آ نکھوں میں بلک  بلک کر سوکھ جاتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں ہمارا ملک دہشت گردی کا شکار ہے ۔ جب ہم یوں ہی  اپنی نئی نسل کے حوالے سے  غفلت کا مرتکب رہیںگے، ان کو جدید تقاضوں کے مطابق زیور علم سے آراستہ نہیں کرینگے ، ان کو صحت مند ماحول مہیا نہیں کرینگے تو گویا ہم اپنی آغوش میں دہشت گرد ، ڈاکو اور باغی پالتے رہینگے ۔ جو بڑے ہو کر رد عمل کے طور پر ملک و قوم کو وہی لوٹائنگے جو ہم ان کو دے رہے ہیں ۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بچوں سے مشقت لینے کے اس عمل کی روک تھام کے یے وضع کردہ قانون پر سختی سے عمل درامد کو یقینی بنائیں

یہ بچہ کس کا بچہ ہے
جس آدم کے بیٹے ہیں
یہ اس آدم کا بیٹا ہے
یہ آدم ایک ہی آدم ہے
وہ گورا ہے یا کالا ہے
یہ دھرتی ایک ہی دھرتی ہے
یہ دنیا ایک ہی دنیا ہے
سب اِک داتا کے بندے ہیں
سب بندوں کا اِک داتا ہے
کچھ پورب پچھم فرق نہیں
اِس دھرتی پر حق سب کا ہے

Print Friendly, PDF & Email

تبصرہ

  1. یہ آگہی میری مجھے رکھتی ہے بیقرار…
    خوابیدہ اس شرر میں ہے آتشکدے ہزار…
    یہ امتیازِ رفعت و پستی اسی سے ہے…
    گل میں مہک شراب میں مستی اسی سے ہے…

    اتنا شاندار کالم لکھنے پر دل سے مبارکباد قبول فرمائیں. آپ اتنے حساس ہو گئے ہو یہ مجھے اب پتہ چلا…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے