آئی نئی ہوا

‏ بلندو بالا پہاڑوں سے جڑے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں جنوری کی برفانی راتیں کیسی ہونگی؟ دور میدانی علاقوں اور پر رونق شہروں کے باسی سوچتے ہونگے اور درد دل رکھنے والے لوگ یہاں کے لوگوں کے مسائل کا سوچ کر دل ہی دل میں کڑھتے بھی ہونگے۔ مسائل کہاں نہیں ہیں ۔ یہ تو ہر جگہ سر اٹھاتے ہیں مگر بہ انداز دگر۔گاؤں کی طرف جانے والے کچے راستے جب برف سے ڈھک جاتے ہیں تو گاڑیوں کی آمدو رفت بھی بند ہوجاتی ہے۔ درختیں اور جڑی بوٹیاں برف تلے سر جھکاتے ہیں۔ تیز ہوا کی وجہ سے کسی ٹہنی سے جب برف پھسلتی ہے تو ٹہنی اس طرح اوپر کو اٹھتی ہے جیسے کوئی نمازی رکوع سے قیام کرتا ہے.

پچھم کی جانب پہاڑوں میں برف بہت کم ٹکتی ہے. طویل دورانیے کی دھوپ برف کو پگھلا دیتی ہے ، زمین نرم رہتی ہے۔ سوکھے گھاس پھونس نرم ہوجاتے ہیں تو بھیڑ بکریاں شوق سے کھاتی ہیں اور چرواہا دھوپ میں بیٹھ کر کسی صاف ستھرے پتھر سے تازہ برف لاکر شکر ملاکر خوب کوٹ کوٹ کر کھانے لگتا ہے. ممیاتی بکریاں آس پاس سر جھکائے چرتی جاتی ہیں۔

کبھی کبھی کوئی راگ الاپتا ہے ۔۔۔ گنگناتا ہے۔۔۔دن ڈھلتا ہے تو بھیڑ بکریوں کا رخ گاؤں کے راستے کی طرف موڑ جاتا ہے. ‏ یہاں کے زیادہ تر مکین سیدھے سادھے ہیں . جب ہم انسانیت کے دم توڑنے کا ماتم کرکے ،آنسو پونچھ کر اور نا امید ہو کر یہاں آتے ہیں تو کسی راہ چلتی بڑی بی کی میٹھی باتیں ، واری جاتی صورت دیکھتے ہیں تو ہمارے دلوں سے صدا اٹھتی ہے ” انسان عظیم ہے خدایا” پر ہجوم شہروں میں مشینوں کی بھینٹ چڑھی مروت ، محبت ، صداقت ، شرافت اور سخاوت یہاں اب بھی زندہ ہے۔یہاں اب بھی لوگ دل سے مسکراتے ہیں. مسکراہٹ میں ہیو لائی  والی مصنوعیت نہیں ہوتی ، خلوص ہوتا ہے ، حقیقت ہوتی ہے. روتے ہیں تو ٹسوے نہیں بہاتے ، جم کر روتے ہیں اور درد باٹتنے ہیں. خدا سے ان کا ربط پکا ہوتا ہے. جب دھرم کا سوال ہو تو جان ہتھیلی پہ رکھ کر نکل آتے ہیں. جس کا جو بھی عقیدہ ہے اس میں مطمئن رہتا ہے تذبذب کا شکارنہیں ہوتا. عبادت خانے آباد رہتے ہیں. جھوٹ بولتے ہوئے لرز اٹھتے ہیں. اگرچہ ان دور افتادہ اور پسماندہ بستیوں میں نئی ہوا آئی ہے، رجحانات بدل رہے ہیں ۔لوگ چالاک اور مفاد پر ست ہو رہے ہیں

لیکن پھر بھی یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے۔ ‏ بزرگ نئی نسل کی بے راہ روی سے اکثر نالاں نظر آتے ہیں

بزرگوں کا اس نئی روش پہ شکوہ کناں ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں …… وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی روایات اور اعلیٰ اقدار کو مٹتے نہیں دیکھنا چاہتے …… مگر مشکل یہ ہے کہ بدلتے رجحانات کے سامنے بند باندھنا نا ممکن ہے. نئی نسل اپنی زندگی آپ جئے گی. اس کو ہم پا بند نہیں کرسکتے ، تعیر و تبدل کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے. ہم اچھی تربیت کے ذریعے اچھے اقدار کو ان تک منتقل کر سکتے ہیں اور وہ اپنے طور پر ان کو اپنا کر زندگی گزاریں گے….. جب گاؤں کا ہمارا بزرگ اپنے کسی کراچی پلٹ نوجوان اورتعلیم یافتہ بیٹے کے عادات و اطوار ، لباس اور طرز گفتگو کو دیکھ کر اسے کسی اور جہاں کی مخلوق سمجھنے لگے گا تو اس سے "جینرریشن گیپ ” گیپ کا پتہ چلتا ہے ۔اسی گیپ سے رشتے کمزور پڑجاینگے اور خاندانی شیرازہ بندی بکھرنے کے امکانات زیادہ ہونگے. ‏ گاؤں کی فطری، روایتی محبت امیز و پرخلوص زندگی کو جدید چیلنجوں کے باوجود مٹنے سے بچائے رکھنے کے لیے ، تہذیبی اقدار اور روایات کی پاسداری ضروری ہے. نئی نسل کو اپنی روایات اور تمدن سے جڑے رکھنے کے لئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے. دم توڑتی رسم و رواج کی احیاء ، زبان و ادب کی تفہیم و تدریس وغیرہ کے ذریعے ہی ہم اس خلیج کو پاٹنے کے قابل ہو سکیں گے. ورنہ تہذیبیں مٹتی دیر نہیں لگتی.یہ بلندہ بالا پہاڑ ہی در حقیقت ہمارے تمدن کے حقیقی محافظ ہیں. ان کی وجہ سے ہماری ترقی رکی ہوئی اور ہماری تہذیب بچی ہوئی تھی. اب چونکہ ہم نے ان پہاڑوں کو چیرکر ترقی کی راہیں ہموار کی ہے.تو ہمیں اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہیئے کہ مادی ترقی ہمیشہ اپنے ساتھ تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کے لیے زہر میں بجھی خنجر لے کر آتی ہے۔تہذیبی  زندگی کے اس نازک موڑ پر ہمیں دور اندیشی اور دانائی کا مظاہرہ کر تے ہوئے ایسا راستہ نکالنا چاہئے جس پر چل کر ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اپنی شناخت قائم رکھتے ہوۓ ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے