آبادی میں رہنے والے سانپ

گنجان آباد، بے ڈھنگے اور کچرے بھرے شہروں کی تنگ و تاریک اور گندی گلیوں میں تیرہ باطن، تنگ نظر اور حیوان خصلت لوگوں کی کمی نہیں جو ہر وقت زینبوں، عائشوں جیسی پھولوں کو مسلنے کی ٹوہ میں رہتے ہے۔ یہ بڑی غلیظ کہانی کے کردار ہیں۔ یہ سانپ طینت لوگ انسان کہلانے کے قابل نہیں ہوتے ۔ سعادت حسن منٹو کہا کرتے تھے "لوگ کہتے ہیں کہ میرے افسانے فحش ہیں حالانکہ ہمارا سماج فحش ہے اور میں اس کی سچی تصویر سامنے لاتا ہوں” چونکہ سماج ایک فرد کی طرح ہوتا ہے ہمارا اجتماعی شعور سماج کا شعور بن جاتا ہے۔ اگر ہماری آبادی کا بیشتر حصہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہو تو ہمارا معاشرہ بھی انسانوں کا معاشرہ کہلائے گا۔ لیکن ہمارے پاس صرف ڈگریاں ہیں جو راشن کارڈ کے کام آتی ہیں ہمارے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے میں ہمارا نظام تعلیم اور ہماری ڈگریاں ناکام ہیں۔فرض کریں ہم اپنے سماج کو ایک فرد سمجھ کراس کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس کی شکل اس انسان کی طرح نظر آئے گی۔ جز کا ظاہر مرصع اور باطن میں وحشی اور درندہ چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ جس کے سامنے کسی معصوم کی معصومیت، کسی پھول کی نزاکت، کسی مظلوم کی آہ، کسی غریب کا درد، کسی درد کی کسک، کسی بھکاری کی التجا، کسی جمیل کا جمال کچھ معنی نہیں رکھتا۔ وہ پھولوں کو مسلنے، دلوں کو روندنے، صداؤں کو دبانے میں کوئی دکھ محسوس نہیں کرتا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمارے معاشرے میں رہنے والے جوان، چھوٹا بڑا، پیر، مرشد، مرد، عورتوں کی خاصی تعداد ہوس و لالچ کے ہاتھوں رال ٹپکاتے ہوئے گمراہی اور جرائم کی طرف کیوں راغب ہورہے ہیں ۔ اس اجتماعی سانحے کی تشخیص اتنی آسان نہیں۔ انسان کی نفسیات بہت ہی گنجلک، پیچ دار چیز ہے یہ جب الجھ جاتی ہے تو انسان گر کر حیوانیت کے پاتال پہنچ جاتا ہے۔ فرد کو حیوانیت کی اس کھوہ تک لے جانے میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ ہم، ہمارا نظام، ہمارے علماء، ہمارا آئین، ہماری حکومت اور سب سے بڑھ کر ہمارا نظام تعلیم۔ سانحہ ہو جاتا ہے، ملک بھر میں آوازیں اٹھتی ہیں۔ احتجاج، جلاو گھیراؤ ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچتا ہے۔ حکومتی اہلکار ہزار مرتبہ مذمت کرتے ہیں۔مذمتوں سے آگے دیوار چین کھڑی ہوجاتی ہے پھر پتہ نہیں اندر ہی اندر کیا کچڑی پکتی ہے۔ سب کچھ پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ مظلوم کو انصاف ملتا ہے یا پیسہ، مجرم کو سزا ملتی ہے یا صاف بچ نکلتا ہے کسی کو خبر نہیں۔ ہزاروں ایسے واقعات ہوتے ہیں مظلوموں کی آہ و بکا اٹھتی ہیں مگر پھر دبا دی جاتی ہیں۔ معلوم نہیں انصاف کے بدلے میں ان کے منہ میں پیسہ ٹھونسا جاتا ہے یا ڈرا دھمکا کر چھپ کرایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا نظام جرم کے پس منظر میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ جرم جب بڑھ کر تناور درخت بن جاتا ہے تو اس کی شاخیں کاٹنے کی محص کوشش کرتا ہے اور عموماً اس میں بھی ناکامی ہوتی ہے۔ اس کو جڑ سے اکھاڑنے کی ہمت کسی میں نہیں۔ ہمارا نظام تعلیم ایک لاش ہے۔ اس لیے ہمارے لوگوں میں شعورو آگاہی پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ ہماری اجتماعی بے حسی کے پیچھے بھی ہمارے نظام تعلیم کا ہاتھ ہے۔ہم یادداشتوں پر معلومات کا بے پایاں بوجھ ڈال کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ فریضہ تعلیم و تعلم کی تکمیل ہوگئی۔ ہم تعلیم کے ساتھ تربیت کے عظیم عمل کو بھلا چکے ہیں، ہم کردار سازی پر توجہ دینا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے بچیاں محفوظ نہیں، ہماری عبادت گاہیں محفوظ نہیں، بچوں، بچیوں کے جنسی استحصال میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے آس پاس انسان نما وحشی درندے موت کا سایہ بن کر دندناتے پھر رہے ہیں۔ شاید اس لیے غلام محمد قاصر کو کہنا پڑا۔

سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے

آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے۔

Print Friendly, PDF & Email