دھواں

میں نے پوچھا  ” عاطفہ کو کیا ہوا”؟ کہنے لگا” وہ مر گئی…… بس دو چار دن گال پھلائے گھر میں ایڑیاں پٹختی رہی پھر ایک دن صبح صبح  گھر سے نکلی اور پھر خلاص….. ” کیسے مر گئی ” ؟ میں نے پوچھا ” دریا میں کود گئی ہوگی اور کیا ” آپ نے ڈھونڈا نہیں ” نہیں دریا کی طغیانی دیکھو! بھلا کیسے مل سکتی ہے  ” پھر آپ کو کس نے بتایا کہ اس نے دریا میں چھلانگ لگائی ہے ”  ” امیری کو دریا کنارے ان کے جوتے اور چوڑیاں مل گئی تھی   ”  اس نے پی کیپ سر سے اتار کر گھنٹے پہ رکھا اور آتشدان کے قریب آکر سگریٹ نکالی اور اس کا سارا تمباکو ہتھیلی پر  الٹ کر   آہستہ آہستہ کریدنے لگا..آگ کے شعلے لپکتے اور جل بجھ رہے تھے اس کا بڑا لڑکا  آفتاب چھری لیے لکڑی کے ٹکڑے پر جھکا ہوا تھا… ..  عدیل کی سیاہی مائل رنگت آگ کی روشنی میں اور گہری ہو رہی تھی.. آنکھیں سیاہ چہرے پر اندر کو دھنسی ہوئی خوفناک لگ رہی تھیں.یہ خوفناکی زندہ نہیں مردہ تھی ،کسی قبرستان کی طرح۔۔۔ اس کی ہتھیلی پر تمباکو کی طرف اشارہ کرکے میں نے پوچھا  "یہ کیا ہے”؟  توکھٹا کھٹ دانت بجا کر ہنسنے لگا، جیسے قبرستان کی جھاڑیوں میں کوئی خشک لکڑیاں توڑ رہا ہو  اچانک ایک کراہ کی آواز سنائی دی ہم نے آفتاب کی طرف دیکھا اس کے غلیظ کپڑے خون میں لتھڑے ہوئے تھے… چھری کی نوک ہتھیلی میں اتر گئی تھی. وہ درد سے دُہرا ہو رہا تھا۔ عدیل  نے اس کو تین چار غلیظ قسم کی گالیاں دیں، پھر اٹھا اور پھر دونوں باپ بیٹا دمادم مست  ہو گئے….. عدیل کی گرفت سے آزاد ہو کر آفتاب باہر کی طرف بھاگا اور دروازے پر جا کر زبان نکال نکال کر باپ کا منہ چڑانے لگا…. عدیل نے پھونکنی سے اس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی  مگر وہ بچ کر نکل گیا۔سارے سالے اپنی منحوس ماں پر گئے ہیں،،  ” اچھا تو آپ اپنی بیوی کے بارے میں بتا رہےتھے ” میں نے یاد دہانی کرائی ” اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی…. . عجیب عورت تھی روز لڑتی تھی  میری ماں سے، کبھی سیدھے منہ بات نہیں کی ماں سے …..” لمبوترے کمرے کے نیم تاریک گوشے میں پڑی  چارپائی پر ایک بوڑھیا چھیتڑو ں میں لپٹی گور گور ہم کو دیکھ رہی تھی .  وہ خاموشی سے سب کچھ سن رہی تھی اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں  جل بجھ رہی تھیں…. اور  بجھی آنکھیں بہت کچھ بتا رہی تھیں… اس کی آنکھوں میں نا امیدی، نفرت، مظلومیت،  بے زاری اور مکاری  کی ملی جلی کیفیات کو صاف پڑھا جا سکتا تھا….. اس کی خاموشی  دیکھ کر مجھے وہ کہانی یاد آنے لگی جس میں ایک شخص گھر کا راستہ بھول کر جنگل میں جا نکلتا ہے اور بندروں میں رہ کر اپنی بولی بھول جاتا ہے………. وہ ہمیں گھورتی رہی،،،، اس نے بات جاری رکھی      "اچھا ہی ہوا، عورت ہزاروں ملیں گے مگر ماں تو ماں ہوتی ہے”  اس جملے پر میں نے بڑھیا کے چہرے کو پڑھا،،،  وہی بےجا ن اور مظلوم  چہرہ جس میں نفرت اوربے زاری تھی، غصہ تھا”اس گھر میں کس چیز کی کمی تھی "عدیل نے  ماچس کی ڈبی سے چرس کا چکنا سا ٹکڑا نکال کر انگلیوں میں مروڑتے ہوئے کہا.” دیکھو  میرے "شغل” پر اس کو اعتراض تھا”…. بھلا دو کش لینے سے کیا فرق پڑتا ہے… میں کونسا عادی نشئی ہوں. کبھی کبھار دو چار سوٹے لگاتا ہوں. … وہ برابر  چرس کے ٹکڑے کو مروڑتا اور بولتا جا رہا تھا”آج اس کی مری پورا ہفتہ ہوگیا”  اس نے چرس اور تمباکو کی آمیزش کو بڑے اشتیاق سے سستے برانڈ کے سگریٹ میں بھرتے ہوئے کہا”عورت ذات کو مرد کے کاموں میں کیا کام ، مرد تو مرد ہوتا ہے” چہرے پر مکروہ سی مسکراہٹ سجا کر اس نے چرس بھری سگریٹ کو ہونٹوں میں دبایا اور   لمبے لمبے  کش لینے لگا. دھویں کا مرغولہ ایسے اوپر اٹھا جیسے شمشان گھاٹ میں کسی  جلتی لاش سے اٹھتا ہے. بس فرق یہ تھا کہ شمشان گھاٹ میں لاش اوپر سے جلنا شروع کرتی ہے اور یہ اندر سے جل رہا تھا……..
عاطفہ کی جب عدیل سے بیاہ ہوئی تو اس کی عمر صرف تیرہ سال تھی اور عدیل تیس پینتیس  کے پیٹے میں تھے… کسرتی  لمبی قامت.پتلی  مونچھیں، ہر وقت سستی برانڈ کی سگریٹ کا دھواں چھوڑتا، بانکا اور بے روزگار جوان تھا… باپ کے گزر جانے کے بعد اس کی پنشن سے گزارہ ہوتا تھا… ماں نے بڑی امیدوں کے ساتھ اس کی شادی کرا دی تھی… عاطفہ کے گھر والے اس رشتے کے خلاف تھے ..عاطفہ گلابی دوپٹہ کندھے پہ لٹکائے تتلیوں کے تعاقب میں کھیتوں کھیت بھاگتے رہنے والی  باتونی سی لڑکی، عدیل کے گھر آکر ایک دم برسوں کی باسی لگنے لگی……. نشئی خاوند کے ساتھ زندگی گویا دکھ کی تصویر بن گئی. بات بات پر لڑائی ہوتی تھی. نشے کی عادت روز بروز بڑھتی جارہی تھی…. کام سے جی چراتا تھا… نشہ نہ ملتا تو گھر کی کوئی چیز لے جا کر بیچ ڈالتا اور یوں گھر میں ہنگامہ کھڑا ہوتا. ماں اور بیوی نشے کے خلاف کوئی بات کرتیں تو کاٹ کھانے کو دوڑتا….. عدیل جتنا قنوطی تھا اتنا ہی مکار بھی تھا..بیوی کی خودکشی کے بعد اس نے پینترا بدلا اور یہ بات مشہور کی کہ میری بیوی نامراد عورت تھیں میری ماں سے روز لڑتی تھی اچھا ہی ہوا جو مرگئی……… حالانکہ ماں خود عدیل سے بیزار تھیں… وہ روز اس کو بد دعائیں دیتی تھیں اس دن میں نے عدیل کو گاؤں کے چھوٹے سے بازار میں دیکھا  وہ ایک سبزی والے سے بھاؤ تاو ٔ  کر رہا تھا… اس کی شکل و صورت سے نحوست ٹپک رہی تھی. پرانے،  غلیظ کپڑے  سامنے کی جیب میں سگریٹ کی ڈبی تھی.. بال الجھے ہوئے، بڑھے ہوئے نا خنوں کے اندر  میل صاف نظر آ رہی تھی.. ساتھ اس کا چھوٹا بیٹا آفتاب کھڑا تھا.. جس کے کپڑے اور جوتے اس  کے قد سے بڑے سائز کے تھے.. اس کی آنکھیں پتھرائی ہوئیں اور تشدد زدہ نظر آ رہی تھیں… عدیل نے سبزی کا تھیلا اٹھایا اور جیب میں ٹٹول ٹٹول پچاس روپے کا پرانا سا نوٹ نکال کر سبزی فروش کو تھما دیا .. سبزی فروش نے مزید پیسوں کا تقاضا کیا مگر عدیل کھسیانی ہنسی ہنس کر وہاں سے کھسک گیا…. میں  نے انہیں روک کر پوچھا تمھاری ماں کیسی ہے؟   ماں….؟؟؟  ماں تو گزر گئی؟     کب اور کیسے ؟ میں نے پوچھا……….   کہنے لگا  "صحت اس کی پہلے سے خراب تھیں  ایک دن  وہ اور زیادہ  بگڑ گئی…. میں ان کو ہسپتال لے کر جانے والا تھا پر پیسے نہیں تھے… رات کا وقت تھا اس کی کھانسی بڑھتی جا رہی تھی……..  اس دوران مجھے نیند آگئی…. اور پھر صبح اٹھ کر دیکھا تو ماں گزر گئی تھی. "جھوٹ بھول رہا ہے یہ، اس رات اس نے دادی کو بہت مارا تھا” پیچھے کھڑے آفتاب نے لعزیدہ آواز میں کہا  "سالا کس نے تیری ماں نے مارا تھا، مجھے تو نیند آر ہی تھی”  یہ کہہ کر پتھر اٹھایا اور بھاگتے لڑکے کے ٹخنے کو پر دے مارا ، وہ اچھل کر گر پڑا… میں ہونق باپ بیٹے کی لڑائی دیکھتا رہا…..     پھرجیب سے اکلوتا سگریٹ نکال کر سلگتے ہوئے کہا "یار سالا چرس  کے لیے پیسے نہیں ہیں پچاس روپے دیدو ” میں نے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور اس  کی گندی ہتھیلی پہ رکھ دیا،   وہ دانت نکال کر ہنسا پھر بازار کے رخ لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا….. میں اسے دیکھتا رہ گیا وہ دھواں چھوڑتا ہوا گلی کی نکڑ میں غائب ہو گیا۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے