عام آدمی

یہ پیکرِ خاکی جب تک سازِ محبت، سوزِ درون، درد کی دولت اور احترامِ آدمیت سے خالی ہے بس مٹی ہے صرف مٹی۔ ہمارے ارد گرد کی دنیا عجیب پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہے. عام آدمی مکھی کی طرح ان معاشی، معاشرتی، سیاسی جالوں میں پھنسا جہد للبقا میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے. کوئی اس کو ادھر کھینچ رہا ہے کوئی ادھر کھینچ رہا ہے. اس کھینچا تانی میں اس کا وجود لہو لہان، گریبان چاک اور دامن تار تار ہوا جاتا ہے. عزت سے دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی. یہاں دولت، عزت اور عہدے کے حصول کے لیے چالیں چلتی ہیں، جالیں بْنتی ہیں، شارٹ کٹ استعمال ہوتے ہیں. حقدار حصولِ حق کی راہ میں نظریں گاڑ کر بوڑھا ہو جاتا ہے. زبردست کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور زیر دست کے بچے سوکھی روٹی پر گزارا کرتے ہیں. محرومی و غریبی کی ستائی ہوئی مائیں اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرکے ندی نالوں میں پھینک دیتی ہیں، کسان حکومت کے مکر و فریب اور جھوٹے وعدوں سے تنگ آ کر اپنی فصلوں کو آگ لگا دیتا ہے. با اثر قاتل پر قانون کے لمبے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور وہ وکٹری کا نشاں بنا کر عدالت سے باہر آتا ہے. بڑے بڑے وزیر مشیر مسلح جھتے پالتے ہیں اور ان سے قتل و غارت گری اور دھونس دھاندلی کا کام لیتے ہیں. جیلیں مرغی اور بکری چوری کرنے والوں سے بھری پڑی ہیں ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والے لٹیرے، قاتل، اغوا برائے تاوان کے مجرم، بھتہ خور مافیا کے غنڈے باہر دندناتے پھر رہے ہیں. عوام کے خون پسینے کی کمائی ولایت میں اشرفیا کے بچوں کی عیاشیوں پر لْٹ رہی ہے. عام آدمی کے لیے دنیا تیرہ و تار ہے. اس کے گھر میں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہے. پینے کا پانی اور سانس لینے کی ہوا بھی آلودہ ہے. سردیاں ٹھٹھرتی اور گرمیاں سلگتی گزرتی ہیں.مگر اقتدار کے ایوانوں میں ان کے مسائل پر سوچنے کے بجائے کرسی کی جنگ چھڑی ہوئی ہے. کسی وزیر و مشیر کو اپنے ادارے کی بہتری کی فکر نہیں بس شاہی وفاداری نبھانا ہی ان کی فرض منصبی ٹھہری ہے. سڑک کنارے جھونپڑی میں بسیرا کرنے والے کنبے پر کیا گزرتی ہے، بیج بازار بیٹھی بھکارن کا کیا حال ہے کوئی کیا جانے. ہسپتال کے باہر سہولیات کیفقدان کی وجہ سے بچہ جنم دینے والی ماں کے درد سے ان کا کیا لینا دینا. دہشت گردی کی دھول بھی ابھی پوری طرح نہیں چھٹی ہے عام آدمی صبح نکلتا ہے اور شام کو واپس آکر کہتا ہے. آج کا دن بھی عیش سے گزرا سر سے پاتک بدن سلامت ہے۔ہائے رے عام آدمی! کتنے سادہ لوح ہیں آپ جس طرف سبز باغ دکھایا جاتا ہے، یہ خالی خولی وعدیجھوٹی تقریریں سْنتے ہی لپک کر اس مہربان کے قافلے میں شامل ہو جاتے ہیں اور نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں. ڈنڈے کھاتے ہیں، جیل جاتے ہیں، سڑکوں پر دن رات گزارتے ہیں. برائے نام راہ نما کے لیے جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں. جلسوں میں آکر دھوپ اور بارش میں گھنٹوں انتظار کرتے ہیں. ارے کوئی راہ نما نہیں ہے! چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب کی منزل اقتدار کی مسند ہے. یہ راہ نما نہیں "گرہ نما” ہیں، یہ سب پرچھائیاں ہیں، سب کٹھ پتلیاں ہیں. کوئی مغرب کا نمک خوادرہے تو کوئی امریکہ کا،کوئی آل سعود کا پروردہ ہے تو کوئی کس کا. ان کو عام آدمی سے نہیں دولت، شہرت اور حکومت سے پیار ہے. ان پر جب تھوڑا بہت گھیرا تنگ ہوتا نظر آتا ہے تو ان کے سینوں میں ایک ہْوک اٹھتی ہے اور یہ لندن کے ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں. ہم اتنے غافل، جاہل اور بھولے بھالے کیوں ہیں؟ ان کے جھوٹے دعوے سْن سْن کر ہمارے کان پک کیوں نہیں جاتے؟ ہم ان کے لطیفوں اور جگت بازیوں کو کب تک سنجیدہ لیتے رہینگے. ایک ایسا شخص جس کی رگوں میں بد عنوانی لہو بن کر دوڑ رہی ہے وہ کھڑے ہوکر کہتا ہے کہ میں اقتدار میں آتے ہی بد عنوانی کا خاتمہ کروں گا، اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو سکتا ہے. ستر سالوں سے ہم ان لالچی راہنماؤں ، اقتدار پرست جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے بچھائے ہوئے دامِ فریب سے باہر نہ آ سکے. جس معاشرے میں رہنما ہی رہزنی کا ارتکاب کریں وہاں عام آدمی کے رات دن کس قدر پریشانی اور تکلیف میں گزرتے ہیں ان کا اندازہ کون کر سکتا ہے. عوام گویا ایک ریوڑ ہے جسے ہر کوئی ہانک کر اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے. کوئی مذہب کے نام پر ایک طرف لے جاتا ہے تو کوئی سیاست کے نام پر دوسری طرف۔یہ کھیل آخر کب تک جاری رہے گا. کیا عوام کے درد کا مداوا مقتدر رہنماؤں کا کام نہیں. کیا کوئی بندہ خدا، کوئی جماعت، کوئی نظام ایسا ہوگا جو خلوص دل سے عوام کی خدمت کرے گا. جس کا دامن بعض و عداوت، لالچ اور اقتدار کی ہوس سے پاک ہوگا. کیا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا؟ ہاں ہوگا ضرور ہوگا، ہم پْر امید ہیں. مگر اس کے لیے نوجوان نسل کو آگے آنا پڑے گی. عوام میں شعور بیدار کرنا ہوگا. کھرے کھوٹے کو واضح کرنا ہوگا. روایت کے بتوں کو توڑ کر معیارات بدلنے ہونگے. تعلیم کو عام کرکے عام آدمی کو اس کے حقوق اور فرائض کا احساس دلانا ہوگا. جبھی ایسا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جہاں کسی سیاستدان، راہنما اور حکمران کو چوری، بدعنوانی اور دھوکے بازی کی جرات نہیں ہوگی. جہاں استحقاق کی بنیاد پر حقوق ملیں گے. جہاں زمین کی گود رنگ و امنگ سے بھری رہے گی. جہاں انصاف کی ہوا چلے گی اور ہر پست کو بالا کر دیگی. سڑکوں پر ننگے سر، ننگے پاؤں پھرنے والے بچے علم کی روشنی سے مستفید ہونگے. گلی کْوچوں سے کچروں کے ڈھیر اٹھ جائیں گے. شفاخانوں میں غریب بیمار کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے علاج ہوگا. اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے سرکاری ملازمیں کو سزائیں دی جائیں گی. کوئی مائی کا لال رشوت نہیں لے سکے گا.ادارے مضبوط ہونگے اور عوام کی خدمت کا پورا پورا حق ادا کریں گے. یوں ہم اور ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا. وگرنہ وہ دن دور نہیں کہ یہ دوہری، تہری شہریت رکھنے والے گرگ آشنا سیاستدان اس ملک اور عوام کا کچومر نکال کر اپنے اپنے "ملک ” سدھار جائیں گے

Print Friendly, PDF & Email