انسان اور فطرت

اگر چہ انسان ایک عالمِ اصغر (Microcosm) ہے۔ اس کے اندر ایک جہاں آباد ہے لیکن اس کے باوجود انسان کی حیثیت و وقعت اس لا متناہی کائنات کے سامنے ایک ذرے سے زیادہ نہیں ہے۔ سب گھتیاں سلجھانے کے بعد بھی الجھن اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔ ایک مقام پر پہنچ کر عقل و دانش، فکر و فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی سب جواب دینے لگتی ہیں۔ آلودگی، بیماریاں ہیں کہ بڑھتی جاتی ہیں۔ بھوک افلاس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، غربت بڑھ رہی ہے۔ انسان مشین بنتا جا رہا ہے۔ احساس مروت، محبت، خلوص اور صلہ رحمی کی جگہ خود غرضی، نفرت، بے حسی، غرور، تکبر اور نخوت لے رہی ہے۔ ہر فرد اپنا سوچ رہا ہے، ہر ملک اپنی بقا کی فکر میں ہے۔ کسی کو انسانیت کی فکر نہیں۔ یہ دنیا جہاں ہم بود و باش رکھتے ہیں سب کی ہے۔سمندر سب کے ہیں، ہوا سب کی ہے، اوزون لیر سب کے اوپر تنی گئی ہے۔ یہ وہ درخت ہے جس میں سب کے نشیمن ہیں لیکن ہم سب کلہاڑی ہاتھ میں لے کر اس کی شاخ شاخ، ڈال ڈال کو کاٹنے میں مصروف ہیں۔ اس کو آلودہ کر رہے ہیں۔ہمارے کارخانوں کا زہریلا پانی دریاوں اور پھر سمندروں کے ساتھ مل کر آبی حیات کے لیے زہر قاتل بن رہا ہے۔ کاربن کا بے انتہا اخراج قسم قسم کی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔سب کہتے ہیں دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے مگر اپنے اس ویلج کو اپنی بساط کے مطابق رہنے کے قابل بنائے رکھنے کا کسی کو خیال نہیں۔ دس درختوں کو کاٹ کر گھروں کو سجاتے ہیں یا جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن اس کی جگہ ایک درخت لگانے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ بے غیر درختوں کے جب پہاڑ الف ننگے کھڑے رہ جاتے ہیں تو ہمیں احساس نہیں ہوتا۔ ہم بسکٹ یا چپس کا ریپر سرِ راہ پھینک کر چلتے بننے والے اور اپنے بچوں کے سامنے سگریٹ کے لمبے لمبے کش بھرنے والے لوگ ہیں۔ پلاسٹک کے تھیلوں سے ہمارے نالے نالیاں بھر چکی ہوتی ہیں مگر ہم اس پر اضافہ کرتے ہیں ہماری نئی نسل بھی اس "مستحسن” عمل میں ہماری پیروی کر رہی ہے۔ جب ہر جگہ گندگی اور غلاظت کی ڈھیر لگ جاتی ہیں تو ہم حکومت کو دوش دینا شروع کرتے ہیں۔کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے ہم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں اور اس زمین کی خوبصورتی، دلکشی اور بہتری میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ زمین صرف ہماری نہیں ہے اس پر ہماری آنے والی نسلوں کا بھی حق ہے۔اگر ہم اس کو تعفن زدہ، آلودہ اور زہریلا بنا کر اگلی نسلوں کے حوالے کریں گے تو وہ ضرور ہمیں کوسیں گے ہمیں برا بھلا کہیں گے۔ہم پر لازم ہے کہ ہم خود بھی ان باتوں پر عمل کریں اور اپنے بچوں کو بھی اسی ڈگر پر تربیت کریں۔ہمارے گلوبل ویلج کی اس گھٹن اور تباہی کی وجہ صرف آبی یا ہوا کی آلودگی نہیں ہے بلکہ ہمارے رویے اور وحشی پن کا بھی اس میں بڑا کردار ہے۔انسان مادہ پرستی میں اپنے انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ معاشی، سیاسی اور معاشرتی فائدے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کو تیار بیٹھا ہے۔ اس میں فرد واحد سے لیکر ممالک تک سب ملوث ہیں۔انسان اپنی تباہی کے تانے بانے اپنے ہاتھوں سے بن رہا ہے۔ کہیں میزائل کا تجربہ ہو رہا ہے کہیں، ہتھیاروں کا سودا طے پا رہا ہے، امریکہ و یورپ بارود کے سوداگر بن بیٹھے ہیں۔ غریب ممالک کے درمیان پھوٹ ڈال کر پھر ان کو اپنی بندوقیں پکڑا کر لڑایا جا رہا ہے۔ توپ و تفنگ کے اس کاروبار میں اس کی معیشت کا دارو مدار ہے۔ ہم تیسری دنیا کے جاہل لوگ ان کی گھناؤنی سازشوں کا شکار ہو کر ان سے دھڑادھڑ سامانِ حرب و ضرب خرید کر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے لگتے ہیں اور مداری آنکھ مار مار کر ہمارا تماشا دیکھتا رہتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ خون آدم کی ارزانی ہو جاتی ہے۔ہر جگہ مسلمان پٹتا ہے۔بچے مرتے ہیں، بوڑھے مرتے ہیں، ہزاروں انسان ان جنگوں کی زد میں آکر کھیت جاتے ہیں۔بیماری، افلاس، غربت عام ہو جاتی ہے۔ بالادستی کی اس جنگ میں ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہے۔اپنی ذات اور اپنے ملک کی فکر نے ملکوں اور انسانوں کو اجتماعی بھلائی کی سوچ اور آفاقی فلاحی طرز فکر سے کوسوں دور لے گیا ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر انسان ہر جگہ فطرت کے ساتھ نبرد آزما ہے۔فطرت میں بے جا مداخلت نے زمین نام کے اس سیارے کو بے حد نقصان پہنچائی ہے اور یہ سلسلہ تیزی جاری ہے۔ جس سے قدرتی آفات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کا تعلیمی نظام صرف امتحان پاس کرنے کے مقصد کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے جو کہ محص معلومات کی سینہ بہ سینہ منتقلی تک محدود ہے۔جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ صفائی، درختوں کی بے جا کٹائی وغیرہ ہر چیز کے بارے معلومات کا خزانہ ہمارے پاس موجود ہونے کے باوجود کوئی اس پر عمل نہیں کرتا۔

Print Friendly, PDF & Email