بے باک کی چند عاجزانہ گزارشات

میرے مرشد جناب ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب نے میرا مضمون "عورت، زبان اور معاشرہ” پڑھ کر نہ صرف عزت بخشی ہے بلکہ میری حوصلہ افزائی بھی فرمائی ہے۔ انھیں جواب دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔لیکن پھر بھی یہ سوچ کے جہاں اتنی بے باکیاں کی ہیں تو ایک جرات اور سہی، یہی سوچ کر کچھ مزید خامہ فرسائی کی جسارت کرنے لگا ہوں۔ میں نے گزشتہ کالم میں جن باتوں کا ذکر کیا تھا ان سب کا تعلق عورت کے ساتھ نا انصافیوں سے تھا۔ مرشد لکھتے ہیں کہ عورت کو جو مان اور سمان زبان نے دی ہے وہ مرد کے مقدر میں نہیں آئیں۔ عورت کو میرژوری، حور، پری اور ملکہ جیسے خوبصورت نام زبان ہی کی وساطت سے ملے ہیں۔ حضرت کی یہ دلیل دیکھ کر  ہنریک ایبسن کی مشہور زمانہ ڈرامہ”اے ڈولز ہاؤس” کے دو کردار Nora اور Helmer کی یاد آئی۔ اس ڈرامہ میں Helmer خوبصورت ناموں جیسے کہ سویٹ،نائٹ اینگل یا بلبل ہزار داستان،اسکائی لارک یا قنبرہاور اسکوئرل یعنی  گلہری کے نام سے پکارتا ہے۔ وہ بیچاری بھی خوش ہے کہ میرا شوہر مجھ سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ لیکن آخر میں یہ پیار اور محبت سے بھرے ہوئے نام سب کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں اور ہیلمر اپنی مردانگی دکھا کے اسے شروع میں ڈرانے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب یہ حربے کارآمد ثابت نہیں ہوتے تو پستی کی ہر اس حد کو پار کرتا جاتا ہے جو کہ کسی مرد کی ‘مردانگی’ کو ہر گز زیبا نہیں ہوتی۔ لیکن ‘نورا’ ان سب کے باوجود اپنی ضد پر قائم رہتی ہے اور گھر چھوڑ کے چلی جاتی ہے اور اسی وقت سے حقوق ِ نسوان کے حوالے سے بیداری کا آغاز ہوتا ہے۔ شیکسپیئر کے طرز تحریر کا ذکر کر کے میرے مرشد نے میرا مسئلہ اور آسان کر دیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ عورت اور عورت کی مظلومیت کے قصے تو شیکسپیئر کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ میں بھی حقوق نسوان کے علمبردار کی حیثیت سے اسی نا انصافی کا رونا رو رہا ہوں۔ جہاں شیکسپیئر جیسے عظیم ڈرامہ نگار جو کہ اپنی تمام آفاقیت کے باوجود ‘Frailty thy name is woman’ (فریلٹی دا نیم از وومن ) کہہ رہا ہے تو کسی اور سے کیا گلہ۔ شیکسپیئر کے دور سے لیکر آج تک ہر دور کے ادب میں عورت کے ساتھ نا انصافی ہوتی آئی ہے۔ یہ راقم  کی بے باکی نہیں اور نہ ہی وہ اس دعویٰ میں یکتا ہے۔ بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ عورت کو ہمیشہ سے غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ شیکسپیئر ہی کے دوسرے ڈرامے(دی مارچنت آف وینس)

‘The Merchant of Venice’ میں Portia کو اتنا بے بس کر کے پیش کیا گیا ہے کہ اس پر اسکے والد کی گرفت اپنے مرنے کے بعد بھی اتنی ہی مضبوط ہے جتنی اسکی زندگی میں تھی۔ بیچاری Portia کو ایک لاچار اور بے بس عورت کی روپ میں پیش کیا گیا ہے جو کہ اپنی مرضی سے اپنا ہم سفر بھی نہیں چن سکتی۔ اسی طرح شیکسپیئر ہی کے ایک اور ڈرامے ‘Twelfth Night’ (ٹوؤلتھ نائٹ)میں Viola (ووئلا)کو اپنی identity چھپانی پڑتی ہے کیونکہ بحیثیت عورت اپنی عزت اور اپنا وقار برقرار نہیں رکھ سکتی کیونکہ وہ ایک ‘کمزور مخلوق’ یعنی کہ ایک عورت ہے۔ اسلئے وہ Viola سے Cesario بنتا ہے۔ کیونکہ Cesario ایک مرد ہے جو کہ اپنی عزت کی حفاظت کر سکتا ہے جبکہ ایک عورت کے لئے یہ ممکن نہیں ۔ اٹھارویں صدی سے لیکر بیسویں صدی تک کے ناولز کا مطالعہ کیا جائے تو ایک چیز سب میں مشترک نظر آتی ہے۔ ان میں عورت کی منظر کشی اس انداز سے کی گئی ہے کہ وہ ایک لاچار اور کمزور مخلوق ہے۔ اسکا سوائے گھر کے دیکھ بھال کے اور کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ گھر کے اندر ہی وہ محفوظ ہے۔ جین آسٹن کے ناولز میں عورتوں کا جو واحد مقصد حیات تواتر سے بیان ہوتا ہے وہ شادی ہے۔ کیونکہ شادی کر کے ہی وہ ‘ایک دوسرے مرد’ کی custody میں جاسکتی ہے۔ اور اسکی حفاظت ایک مرد ہی بہتر طریقے سے کر سکتا ہے۔ جہاں تک گھر میں مرد اور عورت کی حکمرانی کی بات ہے تو یہاں بھی مرد نے عورت کو ایک سیاست اور چال کے ذریعے سے شکست دی ہے۔ اسکو مختلف قسم کے میٹھے میٹھے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ گھر میں اسکو حکمران مانا جاتا ہے۔ اسکا دل رکھنے کے لئے کچھ پیسے دیکر گھر کی مالکن بنائی جاتی ہے۔ وہ بیچاری کنویں کے مینڈک کی طرح اسے ایک پوری دنیا سمجھ بیٹھتی ہے۔ یہ کام مرد ایک عالمی سیاست کے تحت بغیر کسی نسلی، لسانی، مذہبی اور قومی تفریق کے سر انجام دیتے آئے ہیں اور مسلسل انجام دے رہے ہیں۔ جہاں تک زبان، عورت اور معاشرے کا تعلق ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت کے ساتھ زبان، خاص کر کے ادب میں ناانصافیاں ہوتی آئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ کیونکہ زبان پر ہمیشہ مرد ہی کی گرفت مضبوط رہی ہے۔ اسی طرح نورا کے یہ نام اور محبت بھرے القابات اس بات کا ثبوت ہیں کہ Helmer ہر وقت Nora کو یہ احساس دلا رہا ہے کہ وہ ایک بلبل کی طرح نرم و نازک ہے جسے حفاظت کی ضرورت ہے اور یہ حفاظت ایک مرد ہی مہیا کر سکتا ہے جس کا برملا اظہار وہ ڈرامے کے اختتام پر کرتا ہے۔ کھوار میں بھی یہ میٹھے اور پیارے نام کسی محبت میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ یہ بھی ہر لمحہ عورت کو یہ احساس دلا رہی ہوتی ہیں کہ آپ بھی ایک کلی اور موتی کی طرح نازک ہیں اور اپنی حفاظت کے قابل نہیں، اسی لیے آپ کو سہارے کیلئے ایک مرد کی ضرورت ہے۔ آخر میں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ جب عورت اور انکے حقوق کی بات آتی ہے تو کسی جنگل میں جانوروں کی آزادی کا ایک قصہ سنایا جاتا ہے کہ آزادی کے نام پر کچھ مرد عورتوں سے وہ سلوک کرنا چاہتے ہیں جو اس بھیڑیے نے ان جانوروں کے ساتھ کیا۔ گذارش یہ ہے کہ سڑکوں پر نکل کے عورتوں کے حقوق کی بات کرنا ایک الگ معاملہ ہے جبکہ ادب میں موجود عورتوں کی misrepresentation کی تصحیح کرنا بالکل الگ معاملہ ۔ یہ ایک academic issue ہے، جبکہ سڑکوں پر نکل کے حقوق کی بات کرنا بالکل ہی الگ نوعیت کی چیز۔

Print Friendly, PDF & Email