عورت، زبان اور ہمارا معاشرہ

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی زبان کا بنیادی مقصد رابطہ ہے۔ ہم زبان کے ذریعے سے اپنے خیالات، احساسات اور جذبات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں زبان کی "معصومیت” پہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ زبان innocent نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ بھی سیاست جڑی ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ زبان انسانوں کی بنائی ہوئی چیز ہے۔ یعنی کہ جو زبان ہم استعمال کرتے ہیں چاہے وہ اردو ہو یا انگریزی ہو یا کھوار ہو ہر ایک زبان پہ مرد کی اجارہ داری ہے۔ تیسری بات یہ کہ زبان کے ذریعے سے عورت کو ہمیشہ misrepresent کیا گیا ہے۔ ان تین باتوں پہ ہم زبان اور عورت کو پرکھیں گے اور دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی زبان ایک سیاسی چیز ہے یا غیر سیاسی؟ دوسرا یہ دیکھیں گے کہ کیا زبان واقعی میں ‘مین میڈ’ ہے؟ اور تیسرا یہ کہ کیا واقعی میں ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ زبان میں بھی زیادتی کی جاتی رہی ہے یا یہ بھی feminists کا ویسا ہی ایک نعرہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ کوئی بھی زبان innocent نہیں ہوتی ہے۔ زبان کا مقصد صرف communication ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ خیالات، احساسات، کلچر، سماج کی سوچ اور ideas کو بھی propagate کرتی ہے۔ جس طریقے سے اس معاشرے کے لوگ خاص طور پر intellectual elite جس طریقے سے چیزوں کو اپنی تحاریر میں شامل کرتے ہیں وہ ایک narrative بن جاتا ہے۔ دوسری اور تیسری بات انتہائی اہم بھی ہے اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ زبان پہ ہمیشہ سے مرد کی اجارہ داری رہی ہے۔ اس بات کا اعتراف Virgonia Woolf اور Dale Spender جیسے بڑے بڑے feminists نے بھی اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ زبان مرد کی بنائی ہوئی ہیاور مرد نے زبان کے ذریعے سے عورت کو ہمیشہ misrepresent کرتا آیا ہے۔ ان باتوں میں کتنی حقیقت ہے اسکو دیکھنے کیلئے روزمرہ کی زندگی سے کچھ مثالیں لیتے ہیں۔ اردو میں ایک مثال: اس نے شادی نہیں کی۔ (مرد کیلئے) اس کی شادی نہیں ہوئی۔ (عورت کیلئے) شادی کے حوالے سے عورت کو اردو زبان میں ایک کمزور، بے بس اور لاچار کرکے پیش کیا گیا ہے کہ ایک عورت کو اتنا بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی شادی کرانے میں کوئی کردار ادا کر سکے۔ جبکہ مرد کو ایک با اختیار اور طاقتور انسان کے طور پہ پیش کیا گیا ہے۔ انگریزی زبان کی ایک مثال: "Man is mortal.” یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد ہی کیوں؟ یہاں مرد کی جگہ عورت کیوں نہیں ہو سکتی ہے؟ اس کے علاوہ جتنی بھی زبانوں کو ہم دیکھیں ان زبانوں میں تمام گالیاں صنف نازک کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ اب یہاں پر ان گالیوں کو مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا لہذا قاری سے گذارش ہے کہ خود ہی ان گالیوں کو recall کرے۔ کچھ دنوں پہلے ایک ریسرچ کے سلسلے میں کھوارشاعری پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کچھ شعراء کو پڑھ کے یوں محسوس ہونے لگا جیسے معاشرے میں تمام برائیوں کی جڑ عورت ہو۔ عورت کی اس طرح سے representation ہمیشہ سے feminists کیلئے ایک مسئلہ رہا ہے۔ اس کے حل کیلئے وہ کچھ تجاویز پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مسلے کے حل کیلئے کسی احتجاج کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی یہ یکدم سے ہو سکتا ہے۔ اس کا تدارک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عورت کو سب سے پہلے تاریخ کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اس کیلئے عورت کو تاریخ، لٹریچر اور سوسائٹی میں جس انداز سے پیش کیا گیا ہے اس کو عورت لکھاریوں کے خیالات سے ٹھیک کرنا ہوگا۔ ا ن کا خیال یہ ہے کہ اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اور یہ عورت کو آزادی دینے کا پہلا زینہ ہے۔ جب تک ہم اس زینہ کو عبور نہیں کرینگے عورت آزاد نہیں ہوسکتی چاہے ہم احتجاج کریں یا کچھ اور۔ پہلا کام تاریخ کو ٹھیک کرنا ہے اور یہی مشکل ترین کام ہے۔ جہاں زبان عورت کے معاملے میں اتنی متعصب ہو وہاں معاشرے کا عمومی حال کیا ہوگا۔ یہ صرف پاکستان یا مسلمانوں کی بات نہیں ہے۔ یہ صرف اردو یا کھوار کی بات نہیں ہے۔ سب زبانوں اور پورے معاشرے کا یہ حال ہے۔ یورپ ترقی سے گزر رہا ہے۔ انگریزی اس ترقی یافتہ قوم کی زبان ہے۔ اگر اس معاشرے اور اس زبان کا یہ حال ہے تو ہمارا خدا ہی حافظ۔ ہم ہزار دعوے کر لیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت آزاد ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ عورت کو ہم نے زبان میں نہیں بخشا ہے تو روزمرہ زندگی میں اس کو کیسے برابر سمجھ سکتے ہیں یا اس کو آزادی دے سکتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email