کیا واقعی میں ناول گمراہ کرتا ہے؟

ناول اطالوی زبان کا لفظ ہے جو انگریزی کی توسط سے اردو میں بھی رائج ہوا۔ اس کے معنی ہیں "انوکھا، نرالا اور عجیب”، اصطلاح میں ناول وہ قصہ یا کہانی ہے جس کا موضوع انسانی زندگی ہو اور ناول نگار زندگی کے مختلف پہلوؤں کا مکمل اور گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک خاص سلیقے اور ترتیب کے ساتھ اپنے تجربات و مشاہدات کو کہانی کی شکل میں پیش کردے۔ ناول نہ صرف کسی معاشرے کے رسم و رواج، طور طریقے، معاشرت، معیشت، اور مذہب بلکہ اس معاشرے کے لوگوں کی عام زندگی سے لے کر ان کی سوچ، فکراور ان کے اخلاقی اقدار کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن معاشرے کی عکاسی اور کلچر کی نمائندگی کی بات آتی ہے تو چیزیں کنفیوز ہو جاتی ہیں۔ اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں کہ کسی دوسری نسل یا قوم کے شخص کے لکھے ہوئے ناول کو پڑھنے سے اس معاشرے اور اس کے کلچر سے متاثر ہونے کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کوئی بھی صنف خاص کر کے ناول کسی خاص معاشرہ ،وہاں کے لوگوں کے مذہب، ان کی روایات اور ثقافت کی ترجمانی کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناول کا کینوس انتہائی وسیع بھی ہے اور منفرد بھی۔ یہ ان جذبات اور احساسات کی ترجمانی بھی کرتا ہے جو کہ آفاقی یعنی محبت، نفرت، خوشی، غمی، دکھ، درد، لالچ وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو پوری دنیا میں بغیر کسی تفریق کے پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جدید ناول میں صرف معاشرے کی عکاسی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس میں انسانی نفسیات، لسانیات، سائنس، فلسفہ، منطق وغیرہ کو بھی اس کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ناول صرف اور صرف جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے اور اس سے اسلامی اقدار کو خطرہ پہنچ سکتا ہے، ایک مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ جذبات کو متحرک ضرور کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس میں سائنس سے لیکر مذہب اورفلسفے سے لیکر ہنسی مزاح تک کو بھی بہت ہی باریک بینی اورمنطقی انداز سے سامنے لاتا ہے۔ انفرادی طور پر میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ کوئی بھی ناول ایک خاص قوم کی ترجمانی کرتا ہے اور لکھاری اس ناول کے ذریعے اپنا کلچر، مذہب اور روایات کو دوسری اقوام میں منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس قوم (انگریز یا فرانسیسی)کا یہ ناولسٹ اس ناول کے ذریعے سے دوسری قوموں پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے ،چاہے وہ برصغیر کے ہندو ہوں یا مسلمان یا افریقی باشندے۔ وہ دوسری قوموں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کا کلچر، ان کا مذہب، ان کی روایات اور طور طریقے یا تو دقیانوسی ، غیر مہذب یا وحشیانہ ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ ناول کے ذریعے سے تاریخ کو مسخ کرتے ہیں اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا لٹریچر کا کوئی طالب علم کسی ناول کو پڑھ کر ‘گمراہ’ ہوتا ہے یا اس کو تنقیدی انداز سے دیکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی لٹریچر کے طالب علم کی تعلیم ہی critical thinking سے شروع ہوتی ہے۔ انھیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہر چیز کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا ہے۔ (اس لفظ تنقید کو منفی نہ لیا جائے) لٹریچر کے طالب علم کے لیے نہ ہی Austen Janeمعصوم ہے اور نہ E.M Fosterجیسا صوفی طبع ناولسٹ مخلص۔ لٹریچر کا طالب علم Joseph Conrad کے ناول کو بھی تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ 80کی دہائی سے جب Postcolonial theory انگریزی لٹریچر کا حصہ بنا ہے تب سے یہ بحث مزید تیز ہوگئی ہے۔ ایڈورڈ سید اپنے مضمون Jane Austen and Empire میں جین آسٹن کے ناول پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جین آسٹین جتنے معصوم دکھتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔ آپ کے نزدیک اس میں جین آسٹن نے استعماریت کو بجا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح Chinua Achebe نے Joseph Conrad کے ناول Hear of Darkness میں صرف ایک جملے کی وجہ سے ایک پورا ناول لکھ ڈالا۔ یہ کئی مثالوں میں سے ایک دو مثالیں ہیں۔ لٹریچر کا ہر طالب علم اسی تناظر میں مختلف معاشروں اور ان کے لوگوں اور ان کے رسم و رواج، زبان اور ثقافت کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے۔ اگر سٹوڈنٹ میں اہلیت ہو تو وہ اپنے پرانے حکمرانوں (انگریزوں) کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ جہاں تک گمراہ ہونے کا تعلق ہے تو وہ relative term ہے۔ جس بات کو ہم گمراہی سمجھتے ہیں وہ کسی اور کے لیے روشن خیالی ہو سکتی ہے۔ عرض یہ ہے گمراہی کے اور بھی اقسام ہیں لیکن ہم ڈر کے مارے ان کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔ کوئی مذہب کی جنونیت میں گمراہ ہے تو کوئی فرقہ واریت کی گمراہی میں مبتلا۔ کچھ حضرات قومیت کی آڑ میں گمراہی کی طرف رواں دواں ہیں۔ بعض نسلی گمراہی میں مبتلا ہیں تو بعض لسانی اور وطنی ضلالت میں۔ گذارش یہ ہے کہ گمراہ ہونے والے ہر جگہ اور ہر وقت گمراہ ہوتے آئے ہیں۔ اس میں لٹریچر یا ناول کا کیا قصور۔ تو اس لیے کسی انگریزی ناول پڑھنے والے کو گمراہ کہنا سراسر ناانصافی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email