اداروں نے کیا کیا؟

اداروں نے کیا کیا؟” یہ ایک سوال بھی ہے اور اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بھی۔ پچھلے کچھ دنوں سے ایک بحث چل رہی ہے کہ اداروں نے کیا کیا ہے؟اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہمیں اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا۔اداروں کی اگر بات کریں تو چترال کی ترقی میں اداروں کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اور اداروں نے بے مثال کار ہائے نمایاں سرانجام دئے ہیں۔ان کاموں کا حوالہ دینے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ یہاں ادراوں سے مرادحکومتی ادارے نہیں بلکہ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے ادارے ہیں۔ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے آنے سے پہلے چترال کا شمار ایک غریب، ترقی پذیر اور تعلیمی حوالے سے پسماندہ ضلعوں میں ہوا کرتا تھا۔ اکثر یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ چترال کی ترقی بھٹو دور کے بعد شروع ہوئی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی حکومت کے لیے AKDN کے بغیر چترال جیسی جگہ میں کام کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی تھا۔ تین شعبوں میں ہز ہائنس اور آپ کے اداروں کا کردار قابل تعریف بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر میں حکومت کے شانہ بشانہ ان اداروں نے وہ کام کیے جو اکیلی حکومت کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھے۔ ایک بار یارخون جانے کا اتفاق ہوا۔اس وقت انتہائی دورآفتادہ ہونے کے باوجود میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب ایک خوبصورت عمارت پر نظر پڑی۔ قریب جا کے دیکھا تو AKES کے سکول کی عمارت تھی۔ اسی طرح ایک بار اپنے آبائی گاوں میں بیمار پڑا۔ نہ بونی جا سکتا تھا اورچترال جانے کا سوال ہی پیدا نہی ہوتا ں تھا۔ اس لیے رات کے وقت قریبی ہیلتھ سنٹر جانا پڑا۔ وہاں جا کے وہ سہولیات دیکھ کے میں دنگ رہ گیا کیونکہ میں نے وہ سہولیات دیکھ لیں جو ڈی ایچ کیو ہسپتال میں بھی نظر نہیں آتی ہیں۔ صفائی کا ایسا نظام تھا جسے دیکھ کرہی یقین ہوتا ہے کہ واقعی میں "صفائی نصف ایمان” ہے۔ اسی طرح انفراسٹرکچر کا اگر ذکر کریں تو ہر ایک گاوں میں پکی گلیاں اور سڑکیں۔ اس کے علاوہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور کرنا بھی محال ہو جاتا ہے لیکن واسپ والوں نے جگہ جگہ پینے کا صاف پانی مہیا کیا ہے۔ ایسی جگہوں سے پانی لایا گیا ہے جہاں سے عام حالات میں گزرنا بھی محال ہے۔ یہ اس ادارے کی کارکردگی اور چترال کے لیے اس کی خدمات ہیں۔لیکن ان تمام کارناموں کے ساتھ کچھ لوگ ان اداروں پر مختلف سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔ خاص کرآغا خان ہیلتھ سروس کے کچھ ملازمین کو فارغ کرنے کے حوالے سے لوگوں کو شکایات ہیں۔ ان حالات میں ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا یہ ادارے ترقیاتی کام کر کے ہم پر کوئی احسان کر رہے ہیں؟ اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ ہز ہائنس کا ہم پر احسان ہے کہ آپ نے ان اداروں کا آغاز کیا۔ لیکن ان اداروں کو ہمارا بھی احسان مند ہونا چاہئے جو کہ ہماری غربت کو جواز بنا کر فنڈز لے رہے ہیں۔ جونہی غربت ختم ہوگی تو عالمی ڈونرز اپنی عطیات دینا بھی بند کر دینگے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسے سوالات جنم کیوں لیتے ہیں؟ بغیر کسی وجہ کے کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ ان اداروں میں کچھ ایسے کام بھی ہوتے ہیں جہاں میرٹ کی پاسداری نظر نہیں آتی خاص کر کچھ فیملیوں کی بات آجائے تو میرٹ پس پشت چلا جاتا ہے۔لیکن اسی آسامی کے لیے ایک غریب کو میرٹ کے نام پر ذلیل کیا جاتا ہے۔ نیز ایک غریب کو میرٹ پر پورا اترنے کے لیے %90 نمبرلینے پڑتے ہیں جبکہ ایک بااثر خاندان کے چشم و چراغ کو %50 نمبر لینے پر بھی ہائیر کیا جاتا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ اب بھی ماضی کی طرح ڈاون سائزنگ کی آڑ میں ایسے ہی کچھ غریبوں کو نکالنے کے بعد می بااثر لوگوں کی سفارش پر ڈرائیور کی آسامی تک کو بھی نیپوٹزم کی بنیاد پر عنایت کیا جائے گا۔باوجودان تمام خامیوں اور خرابیوں کے چترال میں AKDN کی خدمات لائق تحسین بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔ بحیثیت ایک چترالی میرا دل ان اداروں کے ساتھ دھڑکتا ہے اس لیے ان اداروں پر جب سوال اٹھائے جاتے ہیں تو دل افسردہ ہوتا ہے۔ ان اداروں کی پراپر فنکشننگ میں ہی چترال کی ترقی کا راز ہے۔ اسی طرح عالمی ڈونرز کو بھی اس طرح کی باتیں پتہ چلنے پر ان اداروں کو فنڈز دینے سے نہ صرف کترائیں گے بلکہ ہز ہائنس اور آپ کے عالمگیر وڑن کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ چند ایک خود غرض لوگوں کی وجہ سے آپ کی عظیم شخصیت کو بھی سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ اس لیے بحیثیت ایک شہری میری استدعا ہے کہ ان ملازمین کی grievances کو ایڈریس کیا جائے تاکہ کوئی یہ سوال نہ اٹھا سکے کہ اداروں نے کیا کیا ہے اور نہ ہی یہ جملہ ان اداروں پر سوالیہ نشان بنے۔ ان عناصر کو سامنے لایا جائے جو اس عظیم مشن کو اپنی انا اور خودغرضی سے نقصان پہنچا رہے ہیں تا کہ یہ کام جاری رہ سکیں اور ہم ترقی کی راہ پر گامزن رہیں۔

Print Friendly, PDF & Email