شہید بیٹے کی بہادر ماں

7دسمبر 2016 کو 12 بجے مجھے کال آئی۔ دیکھا تو سلمان لال کی کال تھی۔ کسی کام کے سلسلے میں مل کے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ چونکہ میری کلاسز تھیں اس لیے میں نے کہا کہ شام کو آکے مل لوں گا۔ کہنے لگے کہ ابھی اسلام باد جا رہا ہوں۔ بہر حال، میں نے کہا: لال آپ بڑے ہیں آپ جو فیصلہ کرینگے وہی ہوگا۔ آپ نے کہا!  تہ بیہیل ارتم۔ میں نے کلاسیں لیں اور شام کے وقت گھر پہنچا۔ امی روتی ہوئی گھر آئیں اور کہا کہ جہاز کریش ہوگیا ہے۔ چونکہ اس طرح کی خبریں عام طور پر اڑائی جاتی ہیں تو میں نے کہا کچھ نہیں ہوا ہے یہ افواہ ہوگی۔ میں نے کتاب پڑھنا شروع کیا تو وہاں ‘کیپیٹل’ کا لفظ میری نظر سے گزرا۔ یہ لفظ دیکھتے ہی دل پریشان ہونے لگا اور سلمان لال کی آواز میری کانوں میں گونجی: "میں آج اسلام آباد جارہا ہوں ۔تین دن بعد آوں گا۔” میں نے ادھر ادھر کال کرنے شروع کیےلیکن دل میں کہہ رہا ہوں کہ سلمان لال ضرور بائی روڈ گئے ہیں۔ یا تو آپ کے موبائل میں چارج نہیں ہوگا یا سگنلز کا کوئی ایشو ہوگا۔ شام کے بعد ابو گھر آئے اور کہا بیٹا سلمان بھی ہم سے جدا ہوگئے۔ یہ سنتے ہی میرے پیروں  تلے زمین نکل گئی۔ میں نے کہا ابو سے بھی کسی نے جھوٹ کہا ہے۔ ابھی کوئی معجزہ ہوگا اور سلمان لال سے بات ہوگی اور ہم ایک بار پھر سے خوش ہونگے۔ لیکن، قدرت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو بہت ہی مضبوط سمجھتا تھا لیکن اس دن مجھے احساس ہوا کہ میں کتنا کمزور ہوں۔ شاید یہ میری psychological کمزوری تھی یا مجھ میں حقیقت کا سامنا کرنے کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔ بہر کیف یہ مجھ جیسے ایک کمزور ایمان والے کی روداد تھی جو اپنے بھائی کی جدائی پر جسمانی طور پر شل ہوکر رہ گیا۔ ادھرہماری ماں (سلمان لال کی ماں) ایمان اور یقین کی اعلیٰ مثال پیش کر رہی تھیں۔ بیٹوں کو پریشان دیکھ کے پوچھا کیا ہوا ہے؟ جب بتایا گیا کہ سلمان اب ہمارے درمیان نہیں رہا تو آپ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور فرمایا: "میرا گلہ آپ سے نہیں  ہے اورنہ ہی کسی اور سے ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے ہم پر آزمائش ہے۔ آپ نے کمزور نہیں پڑنا۔ اس آزمائش کی گھڑی میں صبر سے کام لینا۔ اس حادثے میں میرا ایک بیٹا مجھ سے جدا نہیں ہوا ہے،

بلکہ اس جہاز میں جتنے بھی لوگ تھے سب میرے بیٹے، بیٹیاں اور بہن بھائی تھے۔ اگر گلہ کرونگی بھی تو تنہائی میں اپنے رب سے کروں گی۔ آپ نے مضبوط ہونا ہے اور ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرنا ہے” موت ایک مبّرم حقیقت ہے جو نہ بچپن دیکھتی ہے نہ جوانی سے رعایت برتتی ہے اور نہ ضعیف العمری کو خاطر میں لاتی ہے۔ مقررہ وقت پر انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ یہ ایک ایسا بلائے عظیم ہے جس سے مفر کی گنجائش ہے نہ فرار کی سبیل ۔ ہاں انسان اپنے اعزہ و اقارب ، دوست احباب، اور جگر گوشوں کی مفارقت پر امر الہٰی سمجھ کر لبیک کہہ کر اور اس کے فیصلے پر راضی ہو کر اپنے آپ کو سنبھال سکتا ہے۔اس صبر جمیل اور برداشت عظیم کا عملی مظاہرہ پیارے بھائی (سلمان) کی شہادت کےموقع پر ا ماں(نان) کی شخصیت میں نظر آیا۔ جس طریقے سے آپ نے سب کو سنبھالا اور تسلی دی اور اس عظیم سانحے کو صبر جمیل کے ساتھ سہا اس کی مثال بہت کم ہی ملتی ہے۔ آپ کی ممتا جس طرح تڑپتی ہوگی اس کو آپ کے علاوہ کوئی جان بھی نہیں سکتا۔ لیکن اس تڑپ اور غم کے باوجود آپ نے جس طریقے سے سب کو سنبھالا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اماں۔۔۔ آپ واقعی عظیم ہیں! سلمان لال ہمارے گلشن کے نہایت خوبصورت، شگفتہ مزاج، نفیس طبع ، خوش رنگ و خوش لباس، یار باش اور ہنستا ، کھلتا، مسکراتا شمیم ِگلِ لالہ تھے۔ آپ کی مفارقت سے خاندان میں جو خلا پیدا ہوا ہے کسی دوسرے سے اس خلا کو پاٹنا ممکن نظر نہیں آتا۔ آپ کو جدا ہوئے بارہ مہینوں کا عرصہ بیت گیا، مگر آپ آج بھی ہمارے درمیان  محسوس ہوتے ہیں، پل پل آپ کی یاد ستاتی ہے، لمحہ لمحہ آپ سے ملنے کو دل کررہا ہے۔ لیکن اسی دوران فرحان کا مسکراتا ہوا چہراجب سامنے آتا ہے تو P.B Shelley کا یہ شعر یاد آتا ہے: "If winter comes, can spring be far behind.” پیارے بھائی یقینا آپکی جدائی ہمارے لیے غم و اندوہ ، حزن و ملال کا موسم لے کے آیا ہے۔ مگر ہر حزن کے بعد مسرت اور ہر غم کے پیچھے شادمانی بھی ایک حقیقت ہے۔ ایک بات جس کی وجہ سے میں خود کو ساری عمر ملامت کرتا رہونگا کہ اس دن میں آپ سے ملا کیوں نہیں۔ اس دن میرا اتنا busy schedule کیوں رہا۔ اے کاش اس دن میں آپ سے ملتا۔ اے کاش، اے کاش۔۔ مگر تقدیر کے معاملات کا انسان کو کیا خبر۔

Print Friendly, PDF & Email