خلافت راشدہ اور مغرب

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرما تے تھے کہ دریا دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو قیامت کے دن مجھ سے پوچھا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں ایک دن بازار سے گزر رہے تھے، دیکھا ایک یہودی آپ کا ذرہ جو کہ چوری ہوا تھا کو بازار میں لاکر بیج رہا ہے۔ خلیفہ ہونے کے باوجود آپ اپنا کیس لیکر قاضی کے پاس جاتے ہیں۔ قاضی گواہ مانگتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ اپنے دونوں بیٹوں کو گواہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ خون کا رشتہ ہونے کی وجہ سے ان کی گواہی مسترد کی جاتی ہے اور قاضی اپنا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیتے ہیں۔ یہ دو واقعات خلافت راشدہ کے دور سے ہیں پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کا آئین بھی اسلامی ہے۔ پاک لوگوں کی سرزمین ہے۔ اس پاک دھرتی کی ایک بیٹی جس کا نام عافیہ صدیقی تھا کو امریکہ نے کئی سالوں سے قید کیا ہوا ہے۔ (فی الحال اس بحث میں نہیں پڑتے کہ آیا عافیہ صدیقی بے قصور تھی یا گناہگار۔ یہ مسئلہ امریکیوں کے لیے اہم ہے۔ ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ پاکستانی شہری تھی) اسی طرح امریکی ایک شہری ریمنڈ ڈیوس نے سر عام قتل کیا۔ پاکستانی اداروں نے اسے قید کیا۔ چونکہ وہ پاکستانی شہری تو تھا نہیں۔ نہ ہی وہ مسلمان تھا۔ اس لیے امریکی مشینری بھی حرکت میں آگئی۔ آخر کار اس کو رہا کر کے لے گئے۔ یہ نہ اتنا اہم شخص تھا نہ کوئی نیورو سرجن تھا اور نہ ڈاکٹر تھا، بس ایک معمولی شہری تھا۔ اگر کچھ نہیں تھا تو مسلمان نہیں تھا اور مسلمان ملک کا شہری نہیں تھا۔ اس لیے اتنی اہمیت دی گئی۔ پرویز مشرف کے خلاف کیسز بنتے ہیں لیکن وہ عدالت جانا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ نواز شریف عدالت جاتے ہیں لیکن فیصلہ خلاف آنے پر ‘مجھے کیوں نکالا’ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح امریکی صدر بل کلنٹن پر اپنی سیکرٹری کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کی بنیاد پر کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ اس ملک میں جنسی تعلق رکھنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن صرف اس وجہ سے فیصلہ بل کلنٹن کے خلاف دیا گیا کہ اس نے اپنے سے ایک کمزور کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ اس شخص نے جھوٹ بولا اس لیے اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ کہاں علی رضی اللہ عنہ کا مقام اور آپ کی شان اور کہاں ہم جیسے مسلمانوں کا حال۔ مجھے بل کلنٹن یا امریکیوں کے مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ ٹرینٹی پر یقین رکھتے ہیں یا کسی اور چیز پر۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہاں ان کے معاملات ، معاشرت، سادگی، انصاف وغیرہ کے نظام کو دیکھتا ہوں تو مجھے خلفاء کے دور کی کچھ جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اس موقع پر اقبال کا وہ فرمان مجھے یاد آتا ہے کہ یورپ میں مجھے اسلام نظر آیا مگر مسلمان نہیں اور برصغیر میں مجھے مسلمان نظر آئے مگر اسلام نہیں۔ آج کل یورپ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ بے راہ روی کے شکار ہیں۔ اگر اپنی شہریوں کی حفاظت کرنا بے ہودگی ہے تو مجھے یہ منظور ہے۔ اگر انصاف بہم پہنچانا گناہ ہے تو مجھے یہ گناہ کرنا بھی قبول ہے۔ ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہم یورپی تمدن سے متاثر ہیں تو گزارش یہ ہے کہ ہاں میں متاثر ہوتا ہوں جب امریکی صدر اپنے شہریوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے اور اپنے بچوں کی موت پر آنسو بہاتا ہے۔ ہاں مجھے دکھ ہوتا ہے جب اسلام کا لبادہ اوڑھ کر بیٹیوں اور بیٹوں کا سودا کیا جاتا ہے۔ ہاں مجھے محبت ہے ان کی قانون پسندی سے، نظام عدل سے۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے نفرت ہے ان کی پالیسی سے۔ بحیثیت انسان مجھے دکھ ہوتا ہے جب افغانستان کے نہتے مسلمانوں کو مارا جاتا ہے۔ عراق پر حملے کو میں نہیں بلکہ امریکی خود بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جس طرح ایک عام مسلمان کے دل میں درد ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح ایک امریکی بھی اس درد میں برابر کے شریک ہوتا ہے۔ لیکن ملک کی ایک پالیسی ہوتی ہے جو کہ اسے بولنے سے روکتی ہے۔ جہاں تک ان کے مذہبی عقائد ہیں وہ ان کے ذاتی مسائل ہیں۔ معاشرتی پہلووں کی بات کی جائے تو ان کا سسٹم قابل فخر بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ کیونکہ اکثر و ان کی زندگیوں اور ان کے روزمرہ معاملات میں اسلامی قوانین اور نظام کی چمک دمک نظر آتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email