فریدہ فری کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

جوں ہی میں نے فریدہ سلطانہ فری کی کتاب "ڑانو دشمن” کھولی تو صفحہ نمبر 26 پر ایک غزل پر نظر پڑی۔ غزل پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں کسی انگریزی نظم یا ode کا کھوار ترجمہ پڑھ رہا ہوں۔ غزل کا پہلا شعر جنونو دیہہ تہ مشکیمان اوا ہزار ای قسمہ خوشپ پشیمان اوا
غزل پڑھی تو پروین شاکر کی بے باکی اور رومانویت اس شاعرہ کے کلام میں نظر آئی۔ اب اسے اتفاق کہئے یا کچھ اور، اردو کے شعراء میں سے جن شاعرہ کے کلام کو پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا وہ پروین شاکر صاحبہ کی ‘خوشبو’ تھی۔ ٹھیک اسی طرح کھوار شعراء میں سے پہلا کلام پڑھنے کو ملا وہ فریدہ سلطانہ صاحبہ کی ‘ڑانو دشمن’ تھی۔ اس غزل کو پڑھنے کے بعد میرا تجسس بڑھتا گیا اور یوں میں نے پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ کتاب پڑھتے ہوئے بہت ساری خوبیوں میں سے ایک بات جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ آپ کے کلام میں نسوانیت کا عنصر تھا۔ انگریزی ادب کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں نے فریدہ صاحبہ کی شعری مجموعے کو تین زاویوں سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔
1۔ انگریزی رومانیت اور فریدہ سلطانہ فری کی شاعری
2۔ فریدہ سلطانہ کھوار شاعری کی پہلی فمینسٹ شاعرہ
3۔ فریدہ سلطانہ اور پروین شاکر میں مماثلت انگریزی ”ژانو دشمن’ میں موجود غزلوں یا نظموں کو رومانیت سے موازنہ کرنے سے پہلے ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اردو رومانویت اور انگریزی رومانویت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اردو رومانویت کا دائرہ صنف نازک کی خوبصورتی اور تعریف کے ارد گرد گھومتی ہے۔ جبکہ انگریزی رومانویت کا دائرہ وسیع بھی ہے اور جدید بھی۔ آخر الذکر فطرت، اس کی خوبصورتی اور دلکش مناظر پر فوکس کرتا ہے۔ فریدہ سلطانہ فری کی اکثر نظموں اور غزلوں کی خاصیت یہ ہے کہ آپ نے انگریزی رومانویت کے شعراء کے طرز پہ شاعری کرنے کی سعی کی ہے۔ اور یہی بات آپ کو دوسرے شعراء سے منفرد اور ممتاز بناتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ہتو خیال مہ گانی وجدا بیکو ہروش ساریران کی اسمانہ اسوم
اے عندلیب راغیشٹی گے مہ پوشاو پراڑغار غیری گمبوریو چھانہ اسوم
اس غزل کے ان چند اشعار میں ورڈسورتھ کا فطرت کے ساتھ محبت اور اس کی سبجیکٹیو پریزینٹیشن، شیلے کی حواسیت یا لذائذ نفسانی اور جان کیٹس کی purity کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
ہتو خیال مہ گانی وجدا بیکو ہروش ساریران کی آسمانہ اسوم
اس شعر میں تخیل کو کمال تک پہنچایا گیا ہے۔ شاعرہ کی آسمان میں موجودگی ورڈسورتھ کی نظم Daffodils Theکے پہلے شعر ” as a cloud lonely wandered I hills and vales over high on floats That میں موجود اس تنہا بادل کی مانند ہے جو کہ آسمان کی اونچائی سے قدرت کے مناظر کا مزہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک الگ پہچان بنانا چاہتی ہے۔ اسی طرح اگلے شعر میں پراڑغار غیری گمبوریو چھانہ اسوم” میں بھی شاعرہ کا قدرتی مناظر کے ساتھ ایک گہرالگاو اور انکی representation subjective کا اندازہ ہو جاتا ہے جو کہ ورڈسورتھ کی شاعری کا ایک اہم خاصہ رہا ہے۔ اسی طرح دوسری غزل کا ایک شعر
نگہ کی تھراشک کویان ای چھان کورا
تو ہاو رے گمان کورومان
میں فریدہ سلطانہ فری صاحبہ نے شیلے کے طرز پر حواسیت کو کمال تک پہنچایا ہے۔ یہ شعر پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں شیلے کی نظم West Wind Odetotheکے طرز کا کوئی کھوار نظم پڑھ رہا ہوں۔ پہلے بند میں آپ نے جس خوبصورتی کے ساتھ پتوں کی سرسراہٹ کو بیان کیا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے شیلے کی leaves deadکے بیان سے کم نہیں ہے۔ اس شعر کے دوسرے بند میں شیلے کے اس نظم کے آخری شعر” comes، winter If behind far be spring canمیںْ امید کی جو کرن نظر آتی ہے وہی جھلک فریدہ سلطانہ صاحبہ کے اسی شعر کے دوسرے بند "تو ہاو رے گمان کورومان” میں بھی وہی رجائت نظر آتی ہے۔ جان کیٹس کے نزدیک ایک اچھے شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے لیے زندہ نہ ہو بلکہ اوروں کے لییکوئی اچھا کام کرے اور اس کے لیے اسے ایک شاعر ہونا چاہئے، نہ کہ ایک استاد جو کہ لوگوں کو نصیحت کرتا پھرے۔ فریدہ صاحبہ کی شاعری میں ورڈس ورتھ کی شاعری کی طرح نیچر کے ساتھ محبت ہے تو ساتھ ہی ساتھ کیٹس کی طرح ناصحانہ طرز کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ آپ کی شاعری میں کیٹس کی شاعری کی طرح انسان کی روح میں جذب تو ہوتی ہے لیکن روح کو پریشان کرنے کی بجائے فرحت بخشتی ہے۔ فریدہ صاحبہ دوسرے چترالی شعراء4 کے برعکس ایک ایسی شاعرہ ہیں جنہوں نے انگریزی رومانوی عراء4 کی طرح رسم و رواج، چاہے جن کا تعلق شاعری کرنے سے ہو یا معاشرے سے ہوں، کو پامال کرتے ہوئے subjectivity اور emotions personalکو فوقیت دی ہے۔ لیکن آپ کی subjectivity اردو یا کھوار رومانوی شعراء کے برعکس صنف نازک کے گرد گھومنے کی بجائے نیچر، ا س کی خوبصورتی اور حسیت کی طرف مائل ہے۔

Print Friendly, PDF & Email