ہندوکش بس سروس اور ہمارا رویہ

کچھ دنوں سے سراج الملک صاحب اور آپ کیشروع کی ہوئی فیملی بس سروس کے بارے میں سوشل میڈیا پر بحث جاری ہیچونکہ ہم بیکار لوگ ہیں اور اس طرح کے موضوعات پر بات کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔اس لیے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے کمر کس لی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ لوگوں کا رویہ انتہائی تشدد پسندانہ ہے اور کچھ لوگوں کا رویہ انتہا درجے کی چاپلوسی سے بھرا ہوا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا ایسی بس سروس کی ضرورت تھی؟ تو اس کا جواب ہے۔ بالکل، بلکہ اس کی اشد ضرورت تھی اور یہ سراج صاحب کی مہربانی ہے کہ آپ نے اس سروس کا آغاز کیا۔ دوسری بات یہ کہ کیا پریشانی اور بیماری کا تعلق صرف بلچ اور سنگور تک محدود ہے؟ تو اس کا جواب ہے نہیں۔ ضرورت اور بیماری کسی بھی وقت اور کہیں بھی آسکتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ کیا یہ عمل قابل تعریف ہے؟ تو اس کا جواب بھی ‘ہاں’ ہی ہے۔ چوتھی بات کا تعلق دوسری بات سے ہے۔ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے یا سراج صاحب کی کہ عوام کو ٹرانسپورٹ فراہم کرے؟ اس کا جواب ہر ذی شعور یہ دیگا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ سراج صاحب کی۔ اب آتے ہیں اصل مدعا کی طرف۔ سراج صاحب کا شمار چترال ہی نہیں بلکہ ملک کے نامی گرامی entrepreneurs میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ چترال کے چند ایک intellectuals میں سے ہیں جو وقت اور موقع کی نزاکت کو جانتے اور سمجھتے ہوئے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فن بھی جانتے ہیں۔ جسے Latin میں carpe deim یعنی کہ seize the day کہتے ہیں۔ ہمیں سراج صاحب کی نیت پر کوئی شک نہیں البتہ کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ کسی بھی بزنس کی survival کیلئے ضروری ہے کہ آپ کا لوکل کمیونٹی کے ساتھ ایک اچھا liaison ہو اور سراج صاحب بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔ لہذا آپ نے اس سروس کا آغاز سنگور اور بلچ سے کیا ہے۔ تو جو لوگ اس بات پر اختلاف کر رہے ہیں کہ آخر سنگور اور بلچ ہی کیوں تو ان سے عرض ہے کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ نے سراج صاحب کی صورت میں ایک انسان دوست بزنس مین عطا کیا ہے جس کے دل میں انسانیت کی خدمت کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔ دوسرا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ابھی اس بات کی کیوں یاد آئی؟ پہلے کیوں نہیں آیا؟ تو ان لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ سراج صاحب نہ تو سیاست دان ہیں اور نہ ہی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اب یہ کام انہوں نے الیکشن سے پہلے کیا ہے تو یہ اتفاق ہی ہوسکتا ہے۔ دونوں طبقات کی خدمت میں عرض ہے کہ نہ تو سراج صاحب پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ایک فلاحی کام کا آغاز کیا ہے جس کی بیتحاشا تعریف کی جائے اور نہ ہی یہ کوئی selfless act ہے جسکی تعریف میں زمیں آسمان ایک کئے جائیں۔ اور جو حضرات اس کی مخالفت کر رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ تھوڑا اس چیز کو appreciate کریں اور اس امید کے ساتھ اس وقت کا انتظار کریں جب سراج صاحب کے ہوٹلز دوسری جگہوں پر بھی بنیں گے اور ان جگہوں میں بھی اس طرح کی فیملی بس سروسز کا آغاز کیا جائیگا۔

Print Friendly, PDF & Email