نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کی حالت زار

تعلیم سے مراد وہ تمام طریقہ ہائے تعلیم ہے جن کے ذریعے اقتدار ،عقائد ، عادات ، ہر طرح کا علم ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا جاتا ہے۔ان طریقوں میں داستان گوئی ،بحث و مباحثہ ،تعلیم وتربیت ،روایتی و غیر روایتی طریقہ تعلیم شامل ہے۔تعلیم کسی بھی قوم کا اثاثہ ہے۔جو قوم تعلیم کے معیار کو بہتر سے بہترین بناتی ہے وہ کامیاب رہتی ہے۔تعلیم ہی کسی قوم کی ٹیکنالوجی ، دفاع،صحت ،صنعت وحرفت اور زراعت کے میدان میں کامیابی کی ضامن ہے۔بلاشک وشبہ اقوام وافراد کی ترقی کا انحصار علم و تعلیم پر ہے ،اور علم وتعلیم کاانحصار درسگاہوں میں پڑھانیوالے اساتذہ کرام پر ہوتا ہے۔تعلیمی مقام کی فضا کئی عناصر سے مل کر وجود میں آتی ہے۔تاہم اس فضا کا سب سے اہم عنصر استاد ہی ہے۔ اساتذہ ہی قوم کے معمار ہیں۔شاید بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ وطن میں ایسا طبقہ بھی ہے جو اپنے ہاتھوں میں علم کی شمع لیے ہوئے لاکھوں پاکستانیوں کو منزل مقصود کی طرف رواں دواں رکھتا ہے۔مگر خود ایسی تاریکی میں کھڑا ہے جو کسی کو نظر نہیں آتا۔ خاص کر حکومت کی نظریں تو ان کی طرف اٹھتی ہی نہیں۔وہ طبقہ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام ہیں۔ ان کی حالت دیہاڑی دار مزدوروں سے کسی طور پر بھی مختلف نہیں۔مثلا بیماری کی صورت میں یا ایمرجنسی کی صورت میں اگر ان کو چھٹی کرنی پڑ جائے تو ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔اگر خدا نخواستہ بیماری چند دنوں تک رہے تو انہیں ملازمت سیبرخاست کیا جاتا ہے۔اگر امتحان یا کسی ضروری کام کیلیے ہفتہ یااس سے زیادہ دن چھٹی کی ضرورت پڑ جائے تو انہیں ایک لیٹر ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔بیچارہ استاد کو خوشی ہوتی ہے کہ یہ شاید ایوارڈ کی خوش خبری ہے ،لیکن دراصل جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ادارے کو آپ کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں۔ گویا وہ قوم کے معمار نہیں کسی عمارت کے معمار ہیں۔لیکن ان باتوں کے علاوہ جو بات سب سے زیادہ قابل افسوس ہے وہ یہ ہے کہ ان کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور سے بھی کم ہے۔مگر حکومت کو اس طبقہ کا ذرا بھر بھی خیال نہیں۔ایک طرف حکومت اِن پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار دلوانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی جبکہ دوسری طرف ان کو سرمایہ داروں کے استحصال سے بچانے کے لیے کوئی ضابط ،قانون یا رولز ریگولیشن بنانے سے بھی قاصر ہے۔آخر کیوں حکومت نے اِن پڑھے لکھے نوجوانوں سے آنکھیں پھیر رکھی ہیں ؟ حالانکہ یہ وہ طبقہ ہے جس کی کارکردگی سرکاری اداروں میں پڑھانے والیاساتذہ سے کئی گنا بہتر ہے۔ہر سال بورڈ کیامتحانات میں نجی تعلیمی اداروں کا نتیجہ سرکاری تعلیمی اداروں سے زیادہ بہتر ہوتا ہے ،جو ان اساتذہ کی محنت ،مشقت اور بہتر صلاحیت کا واضح ثبوت ہے۔بے شک وطن عزیز میں ایسے تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں جو اپنے اساتذہ کرام کو معقول تنخواہیں اور سہولیات دیتیہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی حالت زار کی بہتری کیلیے ضروری ہے کہ ان کی محنت کے مطابق ان کی تنخواہوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان اساتذہ کے حقوق کا تحفظ کرے۔نجی تعلیمی اداروں کیلیے خصوصی فنڈز جاری کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی قانون وقاعدہ وضع کرے۔کوئی موثر کنٹرول اتھارٹی قائم کی جائے۔سرکاری اساتذہ کیلیے مقررکردہ پیاسکیلز کی طرز پر ان کے لیے بھی اسکیلز بنائے جائیں۔اگر وہ پڑھانے کا مقدس فریضہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں تو ان کے حقوق کا تعین بھی ضرور کیا جانا چاہئے۔لاکھوں طلبہ کو پڑھانے والے اساتذہ اگر مایوسی ،ذہنی دباو اور مالی کسمپرسی کا شکار رہیں گے تو قوم ترقی و خوشحالی کی منزل پر کبھی نہیں پہنچ سکے گی۔

Print Friendly, PDF & Email