زنجیروں میں جکڑی عورت کی داستان(دوسری قسط)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد خدا کی نعمت ہے ،اولاد کے بغیر کوئی بھی گھر نا مکمل ہے۔ بچوں کی معصوم شرارتیں اور باتیں گھر کی رونق میں اضافہ کردیتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ بیٹی اللہ کی رحمت اور بیٹا نعمت ہے۔لہٰذا اپنی اولاد میں کبھی بھی بیٹے یا بیٹی کا امتیاز نہ برتیں۔ لیکن ہمارے ہاں ابھی ایسے لوگ اور گھرا نے موجود ہیں جو صرف اور صرف بیٹے کی خواہش کرتے ہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر اتنی خوشی ظاہر نہیں کرتے جتنی بیٹے کی پیدائش پر ہوتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر عورت کو شوہر کے طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اکثر گھرانوں میں بیٹی کی پیدائش عورت کی طلاق کا باعث بن جاتی ہے اور یوں اس معصوم عورت کو جس کا اس سارے عمل میں کوئی اختیار نہیں،اپنے ناکردار جرم کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اسلام جوکہ ایک ضابطہ حیات ہے، اولاد کے درمیانتمام امتیازات کو مٹا دیتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے "اگر والدین بیٹی کی پرورش صحیح اور شفقت سے کریں تو ان کا یہ عمل ان کے اور دوزخ کے درمیان پردے کی طرح حائل ہو جائے گا۔ لیکن ! ہمارے معاشرے میں تو ابھی جہالت ختم نہیں ہوئی ہے ،آئے روز غیرت کے نام پر عورت کا قتل ،ظلم ،تشدد ،زیادتی اور جبر و مشقت اور دوسرے واردات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غیرت کے نام پر حوا کی بیٹیوں کو طرح طرح کے ظلم سہنی پڑتی ہے۔ پسند کی شادی کرنے پر عورت کو قتل کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام نے کبھی بھی پسند کی شادی کو منع نہیں کیا ہے۔تو پھر آپ لوگ بحیثیت مسلمان کس جرم کی بنا پر اپنی بیٹیوں کو قتل کرتے ہو۔ کیوں ان کے سہاگ اجاڑ دیتے ہو؟ کیوں انہیں گولیوں کا نشانہ بناتے ہو؟ ایک باپ پسند کی شادی کرنے والی بیٹی کو بہانے سے گھر بلاتا ہے ،پھر انھیں قتل کردیتا ہے۔ بیٹی باپ سے مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ بابا میرے چہرے پر گولی مت مارنا تاکہ مرنے کے بعد لوگ مجھے پہچان سکیں۔ یہ کوئی کہانی یا افسانہ نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے ،یہ روز کا معمول ہے۔ابھی کچھ مہینے پہلے ڈی۔آئی۔خان میں جس طرح حوا کی بیٹی کو برہنہ کرکے سرعام بازار میں گھومایا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ خاموش تماشائی کھڑے دیکھتے رہے۔ایک بہن ،ایک بیٹی کو چادر دینے والا کوئی نہیں تھا؟ کیا وہاں کوئی قانون نہیں تھا جو ان وحشیوں کو سزا دیتے۔ حالانکہ یہ ملک اسلام کے نام پر آزاد ہوا تھا کیا یہاں کسی میں اتنی غیرت نہیں کہ ایک لاچار اور بے بس عورت کی آواز بن سکے۔اگر یہاں کوئی قانون ہوتا تو آج پاکستان کی دْختر ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ کے گوانتانامو جیل میں سلاخوں کے پیچھے نہیں ہوتی۔ یہاں سب کی نظر اپنی کْرسی پر ہوتی ہے،اگر انصاف ہوتا تو کراچی میں جج کی بیوی کمسن ملازمہ پر تشدد نہ کرتی۔ اس کے برعکس مخالف دیس ہندوستان میں ظلم و زیادتی پر قانون سزا دیتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اسلامی ریاست ہونے کے باوجود ایسی فرسودہ ، غیر رسمی، روایات اور قانون کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ (جاری ہے)

Print Friendly, PDF & Email