زنجیروں میں جکڑی عورت کی داستان (آخری حصہ)

زمانہ جہالت میں لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہیں زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہمارے ہاں لوگ اپنی بیٹیوں کو پال پوس کر اْس کو اپنا احساس دلاکر مار دیتے ہیں۔ ہمارے گناہ تو ان سے کئی گنا زیادہ ہیں اور ہمارے جرم کی شاید معافی ہی نہ ہو۔اْن لوگوں کے بارے میں قرآن کریم میں آیا ہے کہ "قیامت کے دن کیا حال ہوگا جب یہ مظلوم بیٹی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی”۔ نجانے ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی کیا کہتا ہے ،زمانہ اب بدل چکی ہے ،اب تو عورت کے ہاتھوں میں زنجیریں اور پاؤں میں باندھی بیڑیاں تو ختم ہونی چاہیے۔ کم از کم اْسے انسان تو تسلیم کرلینی چاہیے۔جس شکل میں خالقِ کائنات نے اْسے بنایا ہے، اْس سوچ کو مرد حضرات ہی بدل سکتے ہیں۔ آغاز اپنے ہی گھر سے کیا جاتا ہے ،این۔جی۔او ہمارے لیے کچھ نہیں کر سکتے، ہم پر تماشہ بین بن سکتے ہیں۔کیا ہم کچھ فرسودہ نظام کے باقیات اور غلط روایات کو اپنا تے رہیں گے؟ آخر کب تک غیرت کے نام پر گناہ کرتے رہیں گے، کیا اپنی غیرت کو ثابت کرنے کے لیے اپنی بہن بیٹیوں کا قتل ہی واحد راستہ ہے؟ نہیں نا؟ معاشرے میں مکمل تبدیلی صرف تنظیم سے نہیں لا ئی جا سکتی ،اس کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں عورت کی تعلیم سخت ضروری ہے کیونکہ ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے ایک مرد کی تعلیم صرف ایک فرد کی تعلیم ہے۔جس گھر میں ایک تعلیم یافتہ ماں ہوتی ہے وہ گھر انسانی تہذیب وتمّدْن کی ایک بہترین یونیورسٹی تصور کی جاتی ہے۔ تعلیم ہی کی بدولت ہم اپنی سوچ میں تبدیلی لا سکتے ہیں ،ورنہ ہماری ہی بہنیں اور بیٹیاں ہمارے ہی ہاتھوں قتل ہوتی رہیں گی اور ہم معاشرتی قوانین کے سامنے بے بسی اور مجبور کٹھ پْتلیوں کی طرح رہیں گی۔ عورت ہی کے دم سے زندگی کی گاڑی روان دوان ہے۔ بزمِ کائنات کی شمع عورت ہی کے دم سے روشن ہے ،عورت کے بغیر زندگی نامکمل ہے۔ دنیا کی ساری خوبصورتی عورت ہی کے دم سے ہے، بقول علامہ اقبال
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
ہم آپﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، ایسے طبقے کا درودوسلام جس پر آپﷺ کا بڑا احسان ہے۔ آپﷺ نے ہم کو اللہ کی مدد سے جاہلیت کی بیڑیوں، بندشوں ،جاہلی عادات و روایات، سوسائٹی کے ظلم اور مردوں کی زور زبردستی اور زیادتی سے نجات دلوائے۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کے رواج کو ختم کیا۔ ماؤں کی نافرمانی پر سزا کی وعید سنائی۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ” جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے”۔ یوم عرفہ کے مشہور تاریخی خطبے میں بھی آپﷺنے ہمیں فراموش نہیں کیا اور کہا کہ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کے نام کے واسطے حاصل کیا ہے۔ لیکن نہیں،آج کل کے دور کے مرد حضرات بار بار یہ کہتے ہیں بلکہ بعض علمائے کرام بھی۔ اگر عورت جنتی ہے،جنت ان کا ٹھکانا ہے تو عورت نبی کیوں نہیں بن سکی؟ بے شک ایک عورت نبی تو نہیں بن سکی لیکن نبی کو جنم دینے والی تو بنی ،نبی کی پرورش تو کی اور ہمارے نبی آخرالزمانﷺ اپنی پہلی وحی کے بارے میں بھی سب سے پہلے ایک عورت یعنی اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کو بتایا، آپﷺ فورا ایمان لے آئیں اور آپﷺ کو تسلی دی اور دعوت اسلام میں آپﷺ کی مدد کی۔ کسی بھی قوم کی ترقی میں عورت ہر لحاظ سے کردار ادا کرتی ہے کیونکہ اگر وہ بالواسطہ ترقی میں حصہ نہیں لیتی لیکن وہ بلاواسطہ ضرور حصہ لیتی ہے۔

میں ماں ہوں میری گود میں پلتے ہیں شہنشاہ
لوگوں کی جو تقدیر بدلتے ہیں شہنشاہ
دامن میرا ہی تھام کے چلتے ہیں شہنشاہ
میری ہی دعاؤں سے سنبھلتے ہیں شہنشاہ

کیونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے لیکن مرد حضرات کے آگے یہ بڑے بڑے حکم کچھ بھی نہیں ان کی نظر میں عورت ایک کپڑا ہے اچھا لگا پہن لیا،جی بھرا تو پھینک دیا۔ خدا کے لیے عورتوں پر ظلم و زیادتی ،غیرت کے نام پر قتل و غارت ،تشدد ،عورتوں سے نازیبا سلوک بند کریں۔عورت مجبور اور مظلوم ہوتی ہے۔کیونکہ معاشرے اور گھر میں ان کے ساتھ نازیبا سلوک عورت کو تنہا نہیں بلکہ ان کے مستقبل کو ختم کر دیتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو اپنی پسند کی زندگی گزارنے کا حق ہی نہیں۔ اگر ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو ہم آج بھی زمانہ جاہلیت کے اس عرب دور سے گزر رہے ہیں۔ بس دعا ہے کہ رسم و رواج کے شکنجے میں جکڑی ہوئی عورت کو ان کے حقوق ملیں، وہ حقوق جو اللہ ،رسولﷺ اور ہمارے مذہب نے ہمیں دیا ہے تاکہ عورت کے ہاتھ پاوں کی زنجیریں جلد ٹوٹیں، خدارا ! کم ازکم انہیں انسان تو تسلیم کریں اور انہیں آگے بڑھنے کا موقع دیں اور ان کی پیدائش پر فخر سے سر اٹھا کر چلیں کہ اللہ نے تمہیں رحمت سے نوازا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email