کھوار موسیقی کی انفرادیت کیسے زندہ رہ سکتی ہے؟

کھوار موسیقی اپنی انفرادیت کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتی ہے؟ ثقافت کیسے زندہ رہتی ہے یا کیسے ایک ثقافت کو زندہ رکھا جاسکتا ہے یہ ایک مشکل سوال ہے۔ جن لوگوں نے اس عنوان پر کتابیں لکھی ہیں ان کے مطابق مذہبی اور سماجی زندگی کی خصوصی اہمیت ان خیالات اور تصورات میں ہے جن کا اظہار الفاظ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے تاہم اگر سوچا جائےتو اقوام، لوگوں یا کمیونٹیز کی پہچان اور آپس میں ان کے گہرے تعلقات بہت حد تک احساسات پر مبنی ہوتے ہیں۔ مثلاًخوراک، موسیقی ، ڈرامہ یا فلم کا تعلق بھی احساسات کی دنیا سے ہے۔ یہ بات موسیقاروں، فنکاروں، کھانا پکانے والوں اور ڈانسرز کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے الفاظ کا سہارا نہیں لیتے۔

کسی بھی معاشرے میں ایک مخصوص زبان کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے جو عموماًمنفرد اور ممتاز ہوتی ہے۔موسیقی میں کچھ ایسا ہے جس کا تعلق خاص طور پر انسان کے احساسات کے ساتھ ہے۔ موسیقی کا تعلق ثقافت کے ساتھ بھی ہےاور زبان کی طرح موسیقی کی بھی کئی اقسام ہیں مگر زبان کے بر عکس موسیقی کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی،لوگ کسی بھی دوسری سوسایٹی کی موسیقی سے محظوظ ہوسکتے ہیں جسکی زبان سے چاہے وہ قطعی طور پر ناآشنا ہی کیوں نہ ہو۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی موسیقی سے کئی سارے لوگ بالکل ہی الگ طریقے سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔موسیقی کو عام طور پر انٹرٹینمنٹ سے منسلک کیا جاتا ہے تاہم موسیقی لوگوں کو اس سے کہیں زیادہ متاثر کرتی ہے، اس کو صرف انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں موسیقی کو ایک ثقافتی پہچان کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ایک سوسائٹی کے اندر اتحاد اور اتفاق کا ذریعہ بھی ہوتا ہے ۔ اسی انفرادی پہچان کو آج کل خطرات لاحق ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس صدی کے آخر تک دنیا کی چالیس فیصد (۲۸۰۰) زبانیں مکمل طور پر ختم ہوسکتی ہیں۔ثقافت کے دیگر اجزاء، یعنی کہانیاں، گیت،موسیقی اوررقص بھی اسی حساب سے زوال پزیر ہیں۔اس سیاق میں علاقائی موسیقی کا زوال پزیر ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔علاقائی موسیقی کیونکہ عموماً کچھ ہی لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے اس کا مکمل طور پر ختم ہونا عین ممکن ہے۔کچھ اسی قسم کی مشکلات کا شکار چترال کی موسیقی بھی ہے، جس میں ۳۶۰ ڈگری کی تبدیلی نظر آرہی ہے۔تبدیلی کو قید نہیں کیا جاسکتا البتہ جس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جو خالص چترالی موسیقی ہے وہ بہت ہی خاص ہے اور جس کو مربوط کوششوں کے طفیل آنے والی نسلوں تک منتقل کیا جاسکتا ہے۔بالفرض آنے والے کچھ سالوں میں یہ موسیقی مکمل طور پر ختم ہوجائے تو صرف چترالی قوم کو ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو اس کا نقصان ہوگا کیونکہ کوئی بھی موسیقی تمام انسانوں کی میراث ہوتی ہے اور انسان کی تخلیقی صلاحیت کا عکاس ہوتی ہے ۔ یہ کوئی عام سی بات نہیں ہے کہ کئی سو سالوں سے موسیقی کے اس خاص طرزکو اس خطے کے اندر زندہ رکھا گیا ہے اوریہی وجہ ہے کہ چترالی موسیقی کی صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کا تصور ہی عجیب ہے۔دوسر ا اہم پہلو دنیا کی گوناگونی کے حوالے سے ہے۔ دنیا کی اصل خوبصورتی ہی یہاں کے لوگوں، ان کی رہن سہن اور رسم و رواج میں موجود اختلاف میں ہے۔اس کا تیسرا اور انتہائی اہم پہلو ثقافت کے حوالے سے ہے۔موسیقی ثقافت کا وہ اہم ترین عنصر ہے جو کسی بھی ثقافت کو دوسری ثقافتوں، لوگوں اور ملکوں میں متعارف کرواتا ہے اور اس کو ایک پہچان دلاتا ہے، کیونکہ موسیقی کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ موسیقی کے ذریعے ہمارے رسم و رواج، کہانیاں ، الفاظ اور محاورے نسل نو کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ چترالی موسیقی کا زوال دراصل چترالی ثقافت کا زوال ثابت ہوسکتا ہے۔ایک اور اہم پہلو، چترال کی موسیقی کا بغور مطالعہ کریں تونظر آتا ہے کہ موسیقی کو ذریعہء اظہار، مذہبی عقیدت، ذریعۂ پیغام رسانی، معاشرتی براییوں کے خلاف آواز اٹھانے، خوشی کا اظہار کرنے یا غم کا اظہار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔گویا موسیقی کا تعلق زندگی کے ہر پہلو سے ہے۔

میری سمجھ کے مطابق، کھوار موسیقی میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو ایک مکمل طرز موسیقی میں ہونی چاہیئے ۔ یہی وجہ ہے کہ چند لاکھ لوگوں کی اس طرز موسیقی کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ حال ہی میں روس میں ایک تقریب منعقد ہوا جس میں پاکستانی گروپ نے بھی شرکت کی۔ اس گروپ میں چترالی ڈانسرز بھی شامل تھے۔اس سیدھی سادھی موسیقی میں کچھ تو خاص ہوگا ناکہ بارہا قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی تشہیر ہوتی ہو رہی ہے ۔ بی بی سی کی ایک ڈوکیومینٹری میں مائیکل پالین نامی ایک مشہور صحافی چترالی موسیقی کا تعارف کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ یہ ایسی موسیقی ہے جو پہاڑوں کے حصارمیں عرصہ دراز سے قیدرہی ہے ۔ یہ خالص ہے، سادہ ہے اور منفرد ہے۔ مائیکل اس موسیقی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ موسیقی زوال پزیر دو وجوہات کی بنا پر ہے۔ پہلا نسل نو کی بے اعتنائی اور موسیقی کے حوالے سے کم علمی۔دوسرا انتہا پسندگروہ جو کہ موسیقی کو اچھا نہیں سمجھتے۔

یوٹیوب پہ میرا ایک چینل ہے جس میں کچھ کھوار گانے بھی موجود ہیں جس میں نئے اور پرانے دونوں گانے شامل ہیں۔جب ایک برطانوی خاتون ریسرچرنے،جو علاقائی موسیقی پر تحقیق کر رہی تھی، میرے چینل سے ایک کھوار گانا اپنے ویب سایٹ پر اپلوڈ کرنے کی درخواست کی تو مجھے خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔ گانا نسبتاًپرانا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس خاتون نے کہا کہ اس گانے میں نہ صرف موسیقی بلکہ پورا ایک ماحول نظر آیا جس سے حقیقی طور پرمیں لطف اندوز ہوئی ہوں اور اس طرز کی محفل موسیقی میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔اس گانے میں موسیقی کے چند بہت ہی پرانے آلات آپ کو نظر آئیں گے مگر کچھ زیادخاص بات ہے تو وہ محفل میں موجود لوگوں کی محویت، ان کی تالیاں، چٹکیاں اور ہر دوسرے لمحے گلوگار اور موسیقاروں کو داد دیئے جانا۔اسی طرز کا ایک کھوار گانا ایک دفعہ فیس بک پہ پوسٹ ہوا تو لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے کمنٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں اس محفل موسیقی کو میڈونا کے کسی بہت بڑے کنسرٹ سے کہیں زیادہ محو کرنے والی محفل ثابت کرکے اس کے اوپر ایک مکمل تھیسس رقم کر سکتا ہوں۔ یار من ہمیں مرزا سیار کا مشہور گانا ہے ۔ منصور علی شباب کی آواز میں یہ گانا یوٹیوب پر اپلوڈ کیا تو ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک بندے نے ای میل کیا ، کہنے لگا میں چھ سالوں سے اس گانے کا انتظار کر رہا تھا۔پہلی دفعہ میں نے لاہور میں کہیں یہ گانا سنا تھا اور تب سے اس کی تلاش میں تھا، مجھے صرف اتنا پتا تھا کہ یہ ایک چترالی گانا ہے۔میں آپ کا مشکور ہوں کہ یہ گانا اپلوڈ کیا ہے ۔مجھے یہ نہیں پتا کہ ان الفاظ کا مطلب کیا ہے مگر جب بھی یہ گانا سنتا ہوں میں محو ہوجاتاہوں اور ایک الگ دنیا میں پہنچ جاتا ہوں۔

ان سب واقعات کا تذکرہ کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ چترال سے باہربھی اس موسیقی کی قدر ہے، اس کی پہچان ہے، اس کی سمجھ ہے۔ اگر اس کو زندہ رکھنا ہے تو یہ تبھی ممکن ہے جب آج کے گلوکار کو اس موسیقی کی حقیقی اور انفرادی روح کی سمجھ ہو ۔ ہم اگرمختلف نہیں رہیں گے تو شاید زندہ ہی نہیں رہیں گے۔یہ سائنس تو ہے نہیں کہ جس کو آسانی سے سمجھا جا سکے۔بہرحال میرا خیال ہے کہ کھوار موسیقی کو جس حد تک ہوسکے ڈیفاین کرنا پڑے گا اور نسل نو کو اس حوالے سے تعلیم اور شعور دینا ہوگا۔اس کے علاوہ مختلف اداروں اور حکومت کی جانب سے فنڈنگ اور مربوط کوشش سے ہی کھوار موسیقی اپنی اصل شکل میں زندہ رہ سکتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے