ذہنوں کا انخلاء اور بدلتے دل؛ چترال چترال نہیں رہا!

یونیورسٹی میں،سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے سے پہلی بار تعارف ہوا تو موصوف کافی دیر میرا چہرہ تکتے رہے،اور آخرکارجب بول پڑے تو کہنے لگے کہ یار میں نے سنا ہے چترال میں جنت ہے۔اور جنت کی انہوں نے کچھ نہایت احمقانہ تصویر کشی بھی کی کہ جہاں دودھ اور شہدکی نہریں تک موجود ہیں۔صاحب رکے نہیں بلکہ مجھے دو چار نصیحتیں بھی کرڈالی اور بولے کہ میں شاید پاگل ہوں جو اتنی ساری نعمتیں چھوڑ کر خشک اور گرم شہروں میں خوارہورہا ہوں۔ا ن کی باتیں ایسی تھیں کہ جو ایک یونیورسٹی اسٹوڈنٹ کے لےٗ باعث شرم ہونی چاہےٗ مگر پاکستانی قوم بیدار ہی اتنی ہے کہ کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔میں نے کہا خیر اتنا بھی نہیں مگر دل رکھنے والے انسان کے لےٗ چترال اس زمین پر جنت سے کم بھی نہیں ہے۔اخوت، بھایٗ چارہ،برداشت، احساس، اخلاص،ہمدردی،سخاوت اور مہرو محبت ایسی صفات ہیں جو چترال کے باسیوں کی پہچان ہیں۔لواری سے شروع کرکے بروغل تک جاےٗ تو لگ بھگ چار سو کلومیٹر پر پھیلا ہوا چترال انہی صفات کا عملی نمونہ نظر آتا ہے، جہاں ایک کونے میں بسنے والے کسی انسان کی خوشی اور درد کو کسی دوسرے کونے میں رہنے والا انسان دل سے محسوس کرتا ہے ۔ اور یہی صفات ہیں جو کسی بھی معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔چترالیوں کی نرم دلی اور خوش اخلاقی پورے پاکستان میں مشہور ہے۔کچھ لوگ شاید اس کو بے غیرتی سے تشبیح دے مگر چترال میں بسنے والوں کی اکثریت مزاجاٌ کم گو اوردوسروں سے تعلق رکھنے کے حوالے سے نہایت نپے تلے روےٗ کا مالک ہوتا ہے۔مگر اپنے حقوق کی خاطر ڈٹے رہنے کی صلاحیت اور اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔

ہماری پہچان ہی ہماری امن پسندی،اخوت اور سخاوت ہے۔مگر اس پہچان کو خطرات لاحق ہیں جو سمجھتے ہوےٗ یا ناسمجھی میں ہمارے ہی ہاتھوں آلودہ ہوتا جارہا ہے۔کچھ لوگوں کی مجبوریاں، کچھ مالی مشکلات اور کچھ لوگوں کی بے حسی کی سبب چترال اب وہ چترال نہیں ہے جو دو عشرے پہلے تھا۔چترال سے ذہنوں اور لوگوں کا انخلاء، معاشی اور معاشرتی تغیرات،تعلیم یافتہ افراد کی بہتات کے ساتھ بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ خصوصاٌ سوشل سیکٹر میں کام کرنے والے اداروں کی افادیت میں کمی کا احساس اور اس حوالے سے مقامی آبادیوں کی سمجھ بوجھ میں منفی انداز میں اضافہ کچھ عوامل ہیں جو چترال میں ترقی کی عمل میں رکاوٹ بھی ہیں اور چترال کی انفرادی پہچان کے حوالے سے خطرناک بھی ۔چترال میں ترقی کا ایک دور ۱۹۸۰ کی دہائ میں شروع ہوتا ہے جو اپنی رسم و رواج اور معاشرتی پہچان کو کھوےٗ بغیر آگے بڑھنے کی نہ صرف حوصلہ افزائ کرتا ہے بلکہ اس پہچان کو محفوظ کرنے کے حوالے سے خاطرخواہ وسایٗل کو بروےٗ کار بھی لا تا ہے۔مگر وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ چترال کی ترقی میں مصروف ادارے اپنی مقصدیت کھوتے جاتے ہیں جس کی وجوہات اقربا پروری، میرٹ کا نہ ہونا اور غلط لوگوں کا غلط جگہوں پر تعینات ہونا اور دیگر بہت سارے عوامل رہے ہیں جن پر بحث کی جاسکتی ہے۔

چترال سے باہر چترالیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق چترال کی تقریباٌ پچاس فیصد آبادی پاکستان کے دوسرے شہروں یا پھر بیرون ملک موجود ہے جن کا چترال کے ساتھ رشتہ موسمی پرندوں جیسا ہے۔موسمی پرندے پھر بھی خاندان سمیت نقل مکانی کرتے رہتے ہیں مگر چترالیوں کی اکثریت اتنی خوشقسمت نہیں ہوتی۔انکو خاندان کا پیار بھی قسطوں میں ہی نصیب ہوتاہے کہ سال بھر محنت مزدوری میں گزر جاتا ہے تو چند مہینے ماں، باپ، بہن، بھایٗوں، بیوی، بچوں کے ساتھ گزارنے کو مل جاتے ہیں۔روزگار، تعلیم اور بہتر مواقع کی تلاش میں چترال سے نقل مکانی کرنے والے تمام لوگوں کے حالات بہرحال یکساں نہیں ہیں۔بہت سارے چترالی خواتین اورمرد ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور کوششوں سے ذندگی کے مختلف شعبوں میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کی ہے اور اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کے حوالے سے یا اپنی معیار ذندگی کو بہتر بنانے کے حوالے سے خوشقسمت رہے ہیں۔اہم امر یہ ہے کہ چترال سے باہر قیام پزیر تمام چترالیوں کا چترال کی موجودہ سیاسی،معاشی اور معاشرتی ترقی( یا زوال) اور مشکلات (یا آسانیوں ) میں ایک متحرک کردار موجود ہے جس سے ،ضروری نہیں وہ سب خبردار بھی ہوں۔ایسے میں خصوصاٌ پڑھے لکھے افراد کی طرف آنکھیں بار بار اٹھتی ہیں کہ وہ آگے آےٗ اور اپنے علاقے کی اصل پہچان کو زندہ رکھنے کے حوالے سے اپنا کردار سوچ سمجھ کر ادا کریں۔کیونکہ ان لوگوں کی بے مروتی سے ایک خلاء پیدا ہوتا ہے جس کو بھرنے کی کوشش میں ذندگی کے تمام شعبوں میں نا سمجھ اور اکثر نااہل افرادآگے آتے ہیں اور یوں بہتری کی بجاےٗ ابتری ہمارا مقدر بنتا جاتا ہے۔

دوسری اہم بات چترال میں موجود این جی اوز کے حوالے سے ہے جن کا کردارخصوصاٌلوگوں کی معاشی بہتری اور اپنی مدد آپ کے تحت اپنی معیار زندگی اور اپنے معاشرتی کردار کو بہتر انداز میں سمجھنے اور نبھانے کے حوالے سے اہم رہا ہے۔۱۹۸۰ کی دہائ سے شروع ہونے والے یہ ادارے ایک عظیم خواب کی تعبیر میں کوشاں رہے ہیں جن کے پیچھے معاشرتی اور سماجی بہبود کے حوالے سے چترال کے اندر اور چترال کے باہرسے نامی گرامی افراد عمل پیرا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چترال میں اس سوچ کو بہت پزیرائ ملی اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی حالت بدلنے میں کامیاب رہے ۔مختلف تحقیقاتی اداروں کے مطابق لوگوں کی سوچ اور حالات ذندگی میں واضح تبدیلی ان اداروں کی انتھک محنت، لگن اوراپنے مقاصد کی صحیح سمجھ کی بدولت ہی ممکن ہوئ ہے۔غیر حکومتی اداروں کی اس کامیابی سے متاثر ہوکر دیگر ادارے بھی چترال میںآن وارد ہوےٗ اور یوں ان اداروں کا ایک جال پھیل گیا۔اس عمل میں ،بہرحال، اصل مقصد کمزور پڑنے لگاہے اور اداروں کے ساتھ کمیونٹیز کو ساتھ لے کر چلنے کا رجہان کم ہوتا جارہا ہے۔ اب مختلف علاقوں میں کمیونٹی کی بجاےٗ چند موثر شخصیات سے صلاح لی جاتی ہے جو مربوط ترقی کے اصل فلسفے کیساتھ باہم متصادم ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ چترال میں خود انحصاری کا دوسرا مرحلہ وقوع پزیر نہیں ہو پارہا اور گزشتہ دس، پندرہ سالوں میں بیشتر غیر حکومتی اداروں کا کرداراس حوالے سے تقریباٌ نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ان اداروں کے مقاصد میں گاوٗں والوں کے اندر خود انحصاری، مل کرایک مقصد کیلےٗ کام کرنے کی کوشش،اپنی منفرد پہچان کو قائم رکھنے کی لگن اور نےٗ مواقع کا حصول ممکن بناناشامل ہیں ۔اسلےٗ ان مقاصد میں کمزور پیشرفت کو اداروں کی ناکامی سے تشبیح دے تو غلط نہ ہوگا۔

مربوط کوششوں سے لوگوں کو قایٗل کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی پہچان کی خاطر اٹھ کھڑے ہو اور چترال کی ماحول کو آلودہ ہونے سے بچاےٗ۔ پڑھا لکھا طبقہ جو کہیں بھی رہتا ہوں، آگے آےٗ اواس حوالے سے موثر کردار ادا کرے۔ اور غیر حکومتی اداروں کو چاہیےٗ کہ معاشرتی اور سماجی بہبود کے حوالے سے اپنے مقاصد کو سمجھے اور لوگوں کو آگاہ اور متحرک رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔اور یہ سب اقربا ٗ پروری کو ختم کرکے اور صحیح جگہ صحیح پروفیشنل لوگوں کو تعینات کرکے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے