نوازشریف اور جمہوریت

گزشتہ کچھ دنوں میں یہ بحث ضرورت سے زیادہ سننے کو ملنے لگی تو میں نے سوچا ذرا تاریخ کے اوراق الٹ کہ دیکھ لوں کہ کیا واقعی میاں محمد نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے حریف ہیں۔ کچھ لفافہ جرنلسٹ اور میڈیا والے ٹی وی پر اور اخباروں میں یہ ڈھول پیٹتے نہیں تھکتے کہ جناب نواز شریف جمہوریت کے واحد چیمپیٗن ہیں اور اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے دشمن۔ تواس نقطہٗ نظر کا ذرا جائزہ لے کہ دیکھتے ہیں کہ کبھی اپنے سیاسی کیریٗر میں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کا خلوص دل سے اور بہادری سے سامنا کیاکہ نہیں۔

نواز شریف کی سیاسی تاریخ بہت ہی دلچسپ ہے۔انیس سو ستر کی دہائی میں جب سے انہوں نے سیاست میں قدم رکھا ہے انکی ذات متنازعہ ہی رہی ہے۔ایٗر مارشل اصغر خان کے تحریک استقلال سے سیاست کا آغاذ کرنے والے نواز شریف نے ذولفقار علی بھٹو کے خلاف ضیا الحق کے غیر آئنی اقدام کی نہ صرف حمایت کی بلکہ پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دور آمریت کو بھرپور تقویت دی۔ ضیا دور میں نواز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا جس سے نواز شریف نے اپنے ناکام سیاسی کیریٗر کو نیا رخ دیا اور اپنی ذاتی دولت میں بھی بے پناہ اضافہ کیا۔ اسی دوران نواز شریف نے سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات کو بھی نیا موڑ دیا۔تاریخ گواہ ہے کہ نواز شریف ضیا الحق کو اپنا سیاسی باپ مانتے رہے اور برملا اسکا اظہار بھی کرتے رہے۔ ۱۹۹۸ میں جب تک وزیر اعظم ہاوٗس میں رہے نواز شریف نے ضیا کے مشن کو پورا کرنے کا عزم بار بار دہراتے رہے۔

آج کا نواز شریف جمہوریت اور مظبوط آئینی اداروں کی باتیں کر رہا ہے۔ آج کا نواز شریف ماضی کی اپنی غلطیاں بھول چکا ہے جب اس نے جمہوریت کو فاشزم میں تبدیل کیا تھا، جب سپریم کورٹ پر اس نے حملہ کروایا تھا، جب اس نے میرٹ کی دھجیاں اڑا کہ رکھ دی تھی، جب اس نے ذاتی مفاد کی خاطر آئین کو چھیڑ کر مطلق العنان حکمران بننے کی کوشش کی تھی۔

۲۰۱۳ میں جب ایک بار پھر نواز شریف ابھر کے سامنے آےٗ اور وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا تو کیا کیا؟ دھاندلی کے الزامات پر کان نہیں دھری۔ ماڈل ٹاون میں لوگوں کا خون بہایا۔آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیکٹا کو فعال نہیں کیا۔ اپنا کوئی وزیر خارجہ نہیں رکھا۔ ہندوستانی جاسوس کے پکڑے جانے کے بعد لب کشائی کی جسارت نہیں کی۔ کوئی بجٹ ایسا نہیں پیش کرسکے جو عوام دوست ہو۔ پارلیمنٹ میں تشریف لانا گوارا نہیں کیا۔جتنے بھی کیسز کی بات بعد میں ذکر کرتا پھر رہا ہے، ان پر اپنے دور اقتدار میں کوئی بات نہیں کی۔ سب سے افسوسناک پانامہ کیس کے حوالے سے انکا رویہ تھا۔ یہ سب اقدار جمہوری ہیں تو مجھے سمجھا دیں۔ جمہوری نہیں ہیں تو پھر یہ اسٹیبلشمنٹ کا قصور ہے کہ آج نواز شریف مظلوم بنے پھر رہے ہیں یا پھر خود ان کی کارستانیاں۔ آج بھی نواز شریف صرف اگر معافی مانگ لے اپنے ان غلطیوں کی، ہیرا پھیریوں کی اور جمہوریت دشمن پالیسیوں کی اور خلوص دل سے آگے بڑھنے کی بات کریں تو ان کا جمہوریت کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ پھر بھی مانا جاسکتا ہے۔ مگر انتہائی ڈھیٹ پن کے ساتھ صرف یہ رٹ لگاےٗ جانا کہ میں جمہوریت پسند ہوں اور اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ میرا دشمن ہے، بھلا کہاں کی سمجھداری ہے؟ نیلسن منڈیلا بننے کا شوق ہر کسی کو ہے مگر نیلسن منڈیلا بننا ہر کسی کے نصیب میں کہاں۔

Print Friendly, PDF & Email