اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

یہ خبر آج کی نہیں بلکہ دو سال پرانی ہے کہ جاپان میں محققین کی جانب سے ایک روبوٹ کو یونیورسٹی کی انٹری ٹیسٹ میں بٹھایا گیا۔ اس روبوٹ نے جاپان کے مشکل ترین امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے سب کو حیران کر دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ر وبوٹ کو جاپان کے کسی بھی یونیورسٹی میں داخلے سے منع نہیں کیا جاسکتاتھا۔ پانچ مختلف مضامین بشمول ریاضی، فزکس، انگلش اور ہسٹری میں اس روبوٹ نے جاپان کی تاریخی قومی اوسط سے کہیں بہتر کارکردگی دکھائی ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ریاضی اور ہسٹری میں روبوٹ کے نمبر سب سے اچھے آئے۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی حیران کن بات ہوسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ جاپان میں ہی پچھلے سال ایک روبوٹ نے مشترکہ طور پر کتاب لکھی جس کو ادبی فیسٹول میں پیش کیا گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ روبوٹ کی لکھی ہوئی کتاب آخری راونڈ تک مقابلے میں شامل رہا۔ اسی طرح ایک روبوٹ ایسا بنایا گیا ہے کہ جو آپ کو گھر کے کاموں میں مدد دے سکتا ہے جس میں ٹی وی آن کرنا، وقت پر دوائی دینایا دیگر چھوٹے موٹے کا م شا مل ہیں۔ یہ روبوٹ مصنوعی ذہانت کا شاہکار ہے ا س لیے کہ یہ اپنے مالک کے احساسات تک کو سمجھ سکتا ہے۔گویا مشین مکمل طور پر ایک انسان کی طرح انسان سے تعلق استوارکرسکتا ہے۔ تحقیقاتی اداروں اور سائنسدانوں کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ روبوٹ اور انسان کے امتزاج سے ایک ایسی مخلوق جنم لینے جارہی ہے جس کا تصور نہایت دلچسپ اور عجیب ہے۔کہا جا رہا ہے کہ آج سے تیس، چالیس سال بعد آنے والے انسان دور حاضر کے انسان کو بالکل اسی نظر سے دیکھیں گے جس نظر سے آج کا انسان ہزاروں سال پرانے پتھر کے دور کے انسان کو دیکھتا ہے۔
پہلے پہل روبوٹ مشینوں نے انسان کی ز ندگی میں قدم رکھا توہم نے بڑے ولولے سے ان کا خیر مقدم کیا۔ ہم نے کہا اچھا اس چیز پر ہم بھروسہ کرسکتے ہیں۔اس دن کے بعد سے روبوٹ کا ہماری زندگیوں میں عمل دخل بڑھتا جارہا ہے اور آج ہمارے لیے ویڈیو بنانے اور کھانا بنانے تک اور گاڑیوں کی حفاظت کرنے تک روبوٹ کا ساتھ ایک عام سی بات ہے اور یہ سب ہم اس لیے نہیں دیکھ پاتے کیونکہ روبوٹ کا کوئی چہرہ نہیں جو ہمیں اپنی مسلسل موجودگی کا احساس دلاتا رہے۔آہستہ آہستہ اور غیر محسوس طریقے سے ہم مشینوں کی دنیا میں گھسے جارہے ہیں جس کے نتائج کے بارے میں وثوق سے فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال اس سے اخلاقی، مذہبی، معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی نقطہ نظر سے ہمہ وقت پریشان کن اور خو ش کن توقعات وابستہ ہیں۔
بظاہر سائنس اور ٹیکنالوجی میں زبردست ایجادات کی بدولت دنیا کا مستقبل تابناک نظر آرہا ہے۔ نئی دریافت و ایجادات، سمندر کے آلودہ پانی کو صاف کرکے قابل استعمال بنانا، صحراؤں کو زرعی زمین میں تبدیل کرنا، مہلک اور جان لیوا بیماریوں کا علاج، فری انٹرنیٹ اور شمسی توانائی کے بھرپور استعمال سے دنیا کے غریب ترین لوگوں کو بھی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاسکتا ہے جس سے توقع ہے کہ تمام انسانوں کی زندگی پر نہایت خوشگوار اثر پڑ ے گا۔لیکن ترقی کا یہ نیا دور اپنے ساتھ ایسے چیلنجز لے کہ آسکتا ہے جس کا انسان نے پہلے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو۔
شیری ٹرکل، جوکہ MIT میں ٹیکنا لوجی اور سائنس کے سماجی پہلوو?ں کے حوالے سے لیکچر دیتے ہیں ان چیلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں۔مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ا نکا کہنا ہے کہ مشین ہمیں سمجھتے نہیں ہیں بلکہ ہمیں سمجھنے کا ناٹک کرتے ہیں۔دوسرا چیلنج یہ ہے کہ دوسروں پر انحصار کرنے کی وجہ سے انسان کی سمجھ بوجھ پر منفی اثر پڑرہا ہے۔ اس لیے انسانوں کے روز مرہ کی زندگی میں ٹیکنالوجی کا اس قدر بے جا استعمال غلط ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ا گر ہمیں معاشرتی ذمہ داریوں کا بجا طور پر احساس ہے تو ہمیں روبوٹ کی بجائے انسانوں کی انسانوں کے ساتھ رابطے کو مزید مستحکم بنانا ہوگا۔ سارا کام مشینوں سے کروانے کا مطلب ہوگا مشینوں کے ساتھ زیادہ اورآپس میں کم بات چیت۔گویاہماری مستقبل کی نسل انسان کم اور مشین زیادہ ہوگی۔
تویہ ہے آنے والی دنیا کی وہ حقیقت جس کے مضمرات سے نہ صرف ہم نا آشنا ہیں بلکہ کسی حد تک متنفر بھی۔ کوئی شک نہیں کہ کسی بھی مسئلے کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی پوری سمجھ نہ ہو۔ اس لیے یہ سمجھنا اہم ہے کہ سائنس اپنا کام جاری رکھے گا، نئی دنیائیں دریافت ہوتی رہیں گی اور نئے افق کھلتے رہیں گے۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اور تیزی آئے گا۔ اب تک جس رفتار سے انسانی زندگی کا ارتقاء4 وقوع پذیر ہوا ہے وہ کسی حد تک ہمارے کنٹرول میں رہا ہے۔ مگر گزشتہ کچھ سالوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تبدیلی کا عمل انسان کی گرفت سے نکلتا جارہا ہے جس سے دانشور اورمذہبی حلقے تو ایک طرف، خود سائنسدان بھی پریشان ہیں۔ بدلتی دنیا میں ضروری ہے کہ ذمہ داریاں بھی بدلیں۔ مگر ذمے داروں کو احساس کون دلائے کہ ا ن کی کیا کیا ذمے داریاں ہیں۔ اور ان کو وہ سمجھ کون دے جس کے بل بوتے پر اس چیلنج کا سامنا کیا جاسکتا ہے یا پھر قیامت کی نشانی سمجھ کرہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا دیکھا جائے؟
یہ امر واضح ہے کہ انسان اور گوگل یا انسان اور کمپیوٹر یا انسان اور روبوٹ کے مقابلے میں ہار انسان ہی کی ہوگی۔ شطرنج کے عالمی چیمپین کو بیس سال پہلے کمپیوٹر سے شکست کھانی پڑی تھی اور گوگل سے ذرا سوال پوچھ کر تو دیکھو حیران کردیتا ہے یا روبوٹ سے کشتی لڑنے کی ہمت جگا کر دکھاؤ، نہیں ہراسکتے مشین کو۔ تو کیا ایسی چیز ہے جس کے بل بوتے پر انسان مشین کو ہرا سکتا ہے۔ صرف احساسات۔ احساس ہی وہ چیز ہے جس کا احترام کرنا ہے، جس پر اکتفا کرنا ہے اور جس کو پروان چڑھانا ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے ہی بنائے ہوئے مشین ہمیں استعمال کر رہے ہونگے۔

Print Friendly, PDF & Email