خلائی دور یادور جاہلیت؟

چترال سے اسلام آباد جانے والی جہاز کا حادثہ شاید چترال کی تاریخ کا بدترین حادثہ تھا جس کی بازگشت کئی دنوں تک قومی اور بین لاقوامی میڈیا پر گونجتی رہی۔تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اس حادثے کے ذمہ داروں کا تعین آج تک نہیں ہوسکااورحادثے کی وجہ تین مہینے بعد بھی عوام کے لیے ایک معمہ ہے(گورنمنٹ اور پی آئی اے والوں کو یقیناً وجہ معلوم ہے)۔حکومت اور خصوصاًپی آئی اے کی جانب سے لفظی حکمت عملی کے علاوہ کوئی ایکشن نظر نہیں آیاکیونکہ وہی جہاز آج بھی محو پرواز ہیں جن کے بارے میں کہا گیاکہ یہ قابل استعمال ہی نہیں ہیں۔جہازوں کا لیٹ ہونا اور خرابی کے باعث اتر جانا ویسے ہی معمول کی بات ہے  لیکن ہماری ذہنی پسمنادگی ابھرکر  اس وقت سامنے آگئی  جب ایک ایئر پورٹ پر بکرا ذبح کرکے جہاز اڑایا گیا۔اب بندہ یہ سوچے کہ کیوں نہ پارلیمنٹ ہاوس بند کر دیا جائے، فوج کی بجٹ کہیں اور استعمال ہو، پولیس کی ٹریننگ پر خرچے نہ ہو اور تمام جگہوں پر بکرے کاٹنے والی رسم یا اسی طرز کی کوئی اور رسم نبھائی جائےتاکہ ہمارے گوناگوں مسائل اسی سے ہی حل ہونگے۔
البرٹ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ قدرت کی تخلیق میں صرف ایک چیز کے بارے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں جو لاانتہا ہے،اور وہ ہے انسان کی بیوقوفی۔بحیثیت قوم ہم پاکستانی آئن اسٹائن کے اس قول کی بہترین مثال بنے ہوئے ہیں۔ہر گلی کوچے میں ایک بابا، عامل، نجومی،عجیب و غریب علوم کے ماہراور کرشمہ ساز بیٹھے نظر آتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ یہ سب انتہائی جدید ٹیکنالوجی بشمول ٹی وی اشتہارات، فیس بک اور ٹویٹر کابھرپور استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔مجھے کچھ چار پانچ سو سال پہلے کی یورپ کے حوالے سے ایک کتاب پڑھنے کا موقع ملا جس میں مختلف علوم اور خصوصاً طریقۂ علاج کے حوالے سے واقعات درج تھیں۔تب یورپ میں ایک آدمی کا دعوی ٰ تھا کہ ان کے اندر ایک مشہور حکیم کا روح گھسا ہے اور وہ بیمار کے جسم کے اندر گھس کر بغیر چیر پھاڑ کے آپریشن تک کر سکتے ہیں۔پڑھ کر کچھ سال پہلے میڈیا پر آنے والے اورغوچ کے وہ نوجوان یاد آرہے تھے بقول جن کے مصر سے ایک ڈاکٹر پری ان پرحاوی تھی جو لوگوں کے جسم میں گھس کر آپریشن کرسکتی تھیں۔اسی طرح یورپ میں ایک شخص چاند کی روشنی میں مریضوں کو ننگا کرکے بٹھا دیتا تھا اور لوگوں کو اس بات کا یقین تھا کہ اس سے تمام امراض ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ایک اور شخص گنوں کو سونے میں تبدیل کرنے کا دعویدار تھاجو غلطی سے ایک مشہور بادشاہ کے ہتھے چڑھ گیا۔ اور موصوف پوری زندگی شاہی مہمان بنے رہے۔ بادشاہ نے محض اس امید میں کہ پتہ نہیں کب وہ ان کے لیے سونے کے ڈھیر لگا د ے ان کو مہمان بنائے رکھا۔نیز مذہبی طریقے،فال نکالنا،ڈنڈے مار کر جن نکالنا، درخت کے ساتھ باندھ کر کمر ٹھیک کروانا،پانی میں غوطے لگوانااور دیگر انہونے طریقۂ علاج تب یورپ میں بے حد مقبول تھے۔اُ س دور کویورپ میں دور جاہلیت کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔اورتب  سینکڑوں طریقۂ علاج ایسے تھے جن کا اب یورپ میں نام و نشان بھی نہیں ہےمگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یورپ کے وہ تمام معالج مملکت خداداد پاکستان میں آن وارد ہوئے ہیں۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ یورپ سے وہ بھاگ کیوں گئے اور پاکستان میں آج بھی ویسے ہی مقبول کیوں ہیں جیسے کئی صدی پہلے یورپ میں تھے۔مجھے ایک دوست نے ایک ایسے ہی کرشمہ ساز کا واقعہ نہایت حیرت کے ساتھ سنایا کہ کیسے انہوں نے ایک شخص کو خالی مٹھی بند کرتے اورجب مٹھی کھولی تو ایک نہایت حسین ومعطر تعویزہاتھ میں لاتے دیکھا۔ حیرت مجھے بھی ہوئی کہ ہم خلائی دور میں رہتے ہوئے بھی ایسی چیزوں سے متاثر ہیں۔بہرحال میں نے جواباٌکہا مجھے زیادہ حیرت سمارٹ فون دیکھ کر ہوتا ہے جس کے ذریعے امریکہ میں موجود دوستوں سے نہ صرف بات ہوتی ہے بلکہ ان کے حرکات و سکنات کوبھی دیکھا جاسکتا ہے۔مگراس نوعیت کی تخلیقی کرشما ت  و معجزا ت ہم پاکستانیوں کو نظرہی نہیں آتے شاید اس لیے کہ ہمارا دماغ، ہماری آنکھیں اور کان یہ سب سمجھنے، دیکھنے اور سننے سے محروم ہیں۔

یہ سب کچھ یورپ میں شاید ہوسکتا تھا مگرتوہمات کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جگہ ہی نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ دین اسلام کی تعلیمات کی بنیاد خصوصاٌ عقلی استدلال پر ہے توہم پرستی پر نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شریعت کے اصول دیوانوں اور بچوں پر لاگو نہیں ہوتے۔سوچنا، سمجھنا، پرکھنا، محظوظ ہونا، متشکر ہونا اور اپنی صلاحیتوں کا تمام انسانوں کی بہتری کے لیے استعمال کرنا یقیناٌ مسلمانوں کے دینی فرائض میں شامل ہے۔اِن فرائض کا ادراک مسلمانوں کو تھا تو انہوں نے زندگی کے تمام پہلووں کو سنجیدگی سے لیا اورتاریخ میں مسلمانوں اور اسلام کا نام روشن کیا۔تاریخ اسلام میں عقل کے مثبت استعمال کے حوالے سے بہت کچھ ہے جس سے ہماری نہ صرف حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ علم و عمل کے حوالے سے سینکڑوں مثالیں بھی ملتی ہیں۔ مسلمانوں نے کم و بیش آٹھ سو سال دنیا پر حکومت کی۔مسلمانوں کےتاریخی فتوحات کی گواہ تین براعظم بشمول یورپ، ایشیا اور افریقہ ہیں جہاں مسلمانوں نے مذہبی، معاشی اور معاشرتی کردار ادا کیا۔مسلمان اُس دور میں سپر پاور تھے جن کی عزت و احترام دنیا کے ہر کونے میں کی جاتی تھی۔مفکرین، سائنسدان، ماہر معاشیات، ادیب، شعراء،ماہر قانون، آرکیٹیکٹ، جنرل اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل مسلمانوں نے اسلامی معاشرے کو دنیا کے عظیم ترین معاشروں اور تہذیبوں میں شامل کردیا اور جدید معاشرے اور جدید سائنس  کی بنیاد رکھی مگر افسوس کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اپنے ورثے کی حفاظت تو دور کی بات اپنے اُ س عظیم ورثے کو ماننے سے ہی مسلمان منکر نظر آنے لگے اور وسوسوں کا شکاریہ قوم اسلام کے حقیقی اور عملی اصولوں سے بیزار، سراپا گفتار بنتی چلی گئی اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو کہنا پڑا کہ

’جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو!‘۔
یہ جاننا اہم ہے کہ علم و فن انسانی ذہن کی ایجاد ہے اور اسے فروغ اُس وقت ملتا ہے جب انسان ذہنی طور پر آزاد، معاشی طور پر مستحکم، جان و مال کے تحفظ کے خوف سے آزاد اور امن و امان میں ہو۔ غلامی،تنگدستی، جنگ اور خوف کی حالت میں علم و ادب اور تہذیب کی صحیح پرورش نہیں ہوتی۔اس کا  مطلب یہ ہے کہ جب تک ہماری اجتماعی سوچ نہیں بدلتی ہماری قسمت بھی نہیں بدلنے والی۔اگر اس معاشرے کی قسمت بدلنی ہے تو اپنی ذات میں صرف سوچنا اور غور کرناہی کافی ہوگا۔کیونکہ موجودہ دور میں ہم جس چیز سے یکسر روٹھے ہوئے ہیں وہ ہے سوچنے کی صلاحیت۔ لوگوں کو خبریں پسند ہیں، اور کوئی بھی خبر کہیں سے بھی ملے خرید لیتے ہیں۔کوئی فتنہ، کوئی افواہ یا پروپیگینڈہ، کچھ بھی ہو بک جاتا ہے۔ہم من و عن ہر بات کو سچ مان لیتے ہیں۔ چاہے اخبار میں ہو، ٹی وی پر ہو یا سوشل میڈیا پر۔نیزتوہم پرستی اپنے عروج پر ہے اور نیم حکیم، خودساختہ معلم، بنگالی عامل، جعلی پیر، ڈبل شاہ سب پر بھروسہ ہے ۔پرکھنا لازمی ہے ورنہ گمراہ ہوتے دیر نہیں لگتی اوریہ بات بھی اہم ہے کہ کسی کام کو کرنے سے پہلے دس بار سوچنا چاہیئے ورنہ عین ممکن ہے کہ معاشرہ معاشرہ نہ رہے اور انسان انسان نہ رہے۔سوچنا ہو گا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اورکیا کرسکتے ہیں جس سے ہمارے خاندان، معاشرے اور ملک کی حالت بہتر ہو۔اپنے لیے اخلاقیات کا ایک ایسا نظام وضع کرے کہ جو ہمیں اپنے معاشرتی ذمہ د اریوں کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو،اورجس کے تحت ہم اپنے حقوق کی حفاظت کرسکے اور اپنے فرائض سے بھی آگاہ رہیں۔اور سب سے بڑھ کر اُس اخلاقی نظام سے ہمیں معاشرے کے کمزور طبقات کی عزت کرنے اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی سمجھ حاصل ہوسکے۔تبھی ہم عدل و انصاف پر قائم معاشرہ تعمیر کر سکتے ہیں جہاں نئی نسل باعزت اور پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

تبصرہ

  1. بہت اچھا آرٹیکل ہے جہاں پر اتنی تفصیلات درج ہیں میں نے ایسے تفصیلات پہلے کسی بھی ویب سئٹ یا بلاگ میں نہیں پڑھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے