فری اسٹائل پولو اور پاکستان کی ثقافتی پہچان؟

پولوبادشاہوں کا کھیل اور کھیلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ وہ پولو نہیں جس میں چکروں کا چکر ہوتا ہے بلکہ وہ پولو جس میں کھلاڑی ایک ہاتھ میں پولو اسٹک اورانگلیوں میں لکڑی کی گیند دبائے، دوسرے ہاتھ سے گھوڑے کو چابک مارتے ہوئے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کے ساتھ پولو گراونڈ کے سنٹر کی طرف آتا ہے ،توساتھ ہی روایتی موسیقی کی دھنیں اپنا رنگ بکھیرنا شروع کر دیتی ہیں۔اورسنٹر پہ آکے گیند ہوا میں اچھال کر کمال مہارت کے ساتھ ایک زوردار ہٹ لگاتا ہے تو گویا پولو صحیح معنوں میں فری اسٹائل ہوجاتا ہے۔ چترالی قوم بجا طور پر اپنی اس روایت پر فخر کرتی ہے کہ جس کو صدیوں سے زندہ رکھا گیا ہے۔پولو اگرچہ اس خطے کے طول و عرض میں یکسر مقبول ہے تاہم پولو کا سب سے بڑا ایونٹ شندور پولو فیسٹویل ہے۔ پہلی مرتبہ شندور کے مقام پر، چاند کی روشنی میں پولو کھیلتے ہوئے اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ میجر کوب نے شاید ہی سوچا ہوگا کہ وہ ایک ایسی روایت کی بنیاد ڈالنے جارہے ہیں کہ جو آنے والی سالوں میں اس ملک کا سب سے بڑا روایتی اور سیاحتی پہچان بنے گا۔

پولو ہماری پہچان اور ہمارا فخر ہے۔ ایک روایت کے مطابق پولو ایجاد ہی چترال میں ہوا تھا۔کہا جاتا ہے کہ شروع میں کسی جانور کا سر گیند کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ،بلکہ کبھی کبھار دشمن کا سر بھی گیند کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔کچھ تاریخ دان البتہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے، انکے مطابق یہ کھیل ایرانیوں نے ایجاد کیا تھااور چھٹی صدی قبل ازمسیح میں ایران میں جنگ کی تیاری کے طور پر سپاہیوں کے درمیان یہ کھیل کھیلا جاتا تھا۔ تاہم پولو بلتی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب لکڑی کی گیند کے ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو اس خطے سے پولو کا بہت گہرا تعلق ہے۔آج بھی فری اسٹائل پولو ،جوکہ یقیناٌ پولو کی اصل شکل ہے، کے عظیم ترین کھلاڑیوں کا تعلق اسی خطے سے ہے اور یہ ہی وہ علاقہ ہے جہاں کئ سال بعد بھی پولو اپنے مخصوص انداز میں، بغیر کسی خوف ،بغیر کسی دکھاوے اور بغیر کسی قانون قاعدے کے کھیلا جاتا ہے۔ اظہار علی خان(جو فری اسٹایٗل پولو میں ۸ گول کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں)، پاکستان کے ایک موقر انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم چترالیوں کوپولو کسی مرض کی مانند لاحق ہوجاتا ہے اور تب تک پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک کہ سارا وجود نہ کھا جائے،ایک دفعہ اسے کوئی اپنا لے پھر اسی کا ہوکے رہ جاتا ہے۔پہاڑی لوگوں کی مزاج کے عین مطابق، فری اسٹائل پولو مہارت، ہمت اور ایک لازوال جذبے کا امتزاج ہے۔جنرل (ر) راحیل شریف ۲۰۱۶ میں جشن شندور کے موقع پرفری اسٹائل پولوسے متعلق اپنی حیرت نہ چھپا سکے۔ریٹائیرڈ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پولو ہم بھی کھیلتے ہیں لیکن جو کچھ میں نے شندور میں دیکھا ہے یہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے، اس کے لیے حوصلہ چاہئیے۔

۱۲۰۰۰ فٹ کی بلندی پر موجود، دنیا کے بلند ترین پولو گراونڈ پر چترال اور گلگت کی ٹیمیں جب میدان میں اترتی ہیں اور پولو آہستہ آہستہ اپنی روایتی جوبن پر آنے لگتا ہے تو کھیل اور جنگ کا فرق گویا مٹ جاتا ہے۔ کھلاڑیوں کی ماہرانہ گھڑ سواری، اکسیجن کی کمی کے باعث گرتے پڑتے گھوڑے، پولواسٹک کی وار،موسیقی کی دھنیں، گیند کے تعاقب میں چیتے کی رفتارسے دوڑتے ہوئے گھوڑ ے اور گراونڈ کے چاروں اطراف تماشائیوں کا شور، پہلی دفعہ اس منظر کو دیکھنے والوں کا دل حلق کو آنے لگتا ہے اور غیر ارادی طور اپنے ساتھ والے کا بازو اس قوت سے پکڑ لیتے ہیں جیسے بھاگنے سے انہیں روک رہے ہو۔ فری اسٹائل پولو کی بات کی جائے تو اس میں وہ تمام عناصر موجود ہیں کہ جس سے دنیا بھر کے لوگ محظوظ ہوسکتے ہیں۔ اس میں اسٹائل ہے، اسپیڈ ہے، مہارت ہے، جذبہ ہے، قوت ہے، ہمت ہے اور جوانمردی ہے۔ سی این این کی ایک ڈاکومینٹری میں شندور میں کھیلے جانے والے پولو کو ایک شاہکار کا خطاب دیا گیا ہے۔

جشن شندور پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں ہماری پہچا ن کا ذریعہ ہے۔ ہر سال ہزاروں شائقین اس ایونٹ کو دیکھنے آتے ہیں اور پاکستان کا ایک نہایت مثبت امیج لیکر واپس چلے جاتے ہیں۔ کئی صدور اور وزرائےاعظم کے علاوہ بین الاقوامی شخصیات نے بھی شندور کا وزٹ کیا ہے۔ پاکستان میں اتنی اہمیت شاید ہی کسی اور ایونٹ کو حاصل ہے جتنا شندور پولو ٹورنامنٹ کو ہے۔تاہم غورطلب بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں فری اسٹائل پولو کھیلنے والوں کی تعداد صرف چند سو ہے۔ ان کھلاڑیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی اور سرپرستی وقت کا تقاضا ہے کیونکہ یہ ایک عظیم روایت کے امین ہیں۔ اس کھیل کو فروغ دینے اور ختم ہونے سے بچانے کیلئے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔کسی ٹی وی پروگرام میں میں نے سنا تھا کہ ایک ادارہ ہے جو کہ فری اسٹائل پولو کو پاکستان کی قومی ثقافت(پہچان) کے طور پر اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ امر ہمارے لئے نہایت حوصلہ افزا ہے اور اس سے سوچ کی نئی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ پولو پاکستان میں قومی سطح پر بھی کھیلا جاتا ہے اور گذشتہ ورلڈکپ میں جن چھ ممالک نے حصہ لیا اس میں پاکستان بھی شامل تھا۔سوچا جائے تو یہ ناممکن نہیں ہے کہ پولو کو پاکستان کی ثقا فتی پہچان کے طور پردنیا میں اجاگر کیا جائے۔ تاہم مقتدر طبقوں کو اس کے لیے ہر سطح پر، ہر فورم پرآواز بلند کرنا ہوگا۔

اس سوچ کو حقیقت کا روپ دینے کیلے جہاں ا ور کئی سارے طریقے ہوسکتے ہیں وہاں ٹیکنالوجی کابھی بھرپور استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی کے وسیع پھیلاؤ کے باعث پوری دنیا کے لوگوں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اپنی روایات اور ثقافت کو دوسرے لوگوں تک پہنچائیں۔خصوصاٌنوجوان نسل سوشل میڈیا کے ذریعے اس کوشش میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو یہ بات واضح ہے کہ مراعات یافتہ طبقات یا ترقی یافتہ اقوام کی ثقافت نے ہمیشہ دوسرے لوگوں کے ثقافتوں پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں اور نتیجتاٌ کئی چھوٹی ثقافتوں کا صفایا بھی کردیا ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی کا یہ دوراس لحاظ سے قدرے مختلف رجحان کا سبب بنتا ہوا نظر آرہا ہے کہ اس دور میں جہاں ثقافتی پہچان کو ان گنت خطرات لاحق ہیں وہیں چھوٹی ثقافتوں کو اجاگر کرنے کے لیے بے انتہا مواقع بھی میسر ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے ہم اپنے منفرد پہچان کو سمجھیں، اسکی مخصوص اجزاء کو پرکھیں، اس کی خوبصورتی سے خود محظوظ ہو، اس پر فخر کریں اور دوسرے لوگوں، ثقافتوں اور ملکوں میں اسکو متعارف کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Print Friendly, PDF & Email

2 تبصرے

  1. بہت بہترین ویب سائٹ بنائی ہے اس میں علاقے کے مسائل کے بارے میں تفصیلی خبریں شائع کی جاتی ہے بہت اچھی کاوش ہے ذ نیوز ٹیم اپنی کاوشیں جاری رکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے