چترال۔ شرح تعلیم بہترین، معیارتعلیم پر سوالیہ نشان؟؟

پاکستان میں شرح تعلیم شرم ناک حد تک کم ہے جس کا ذکر نہ ہی کرے تو بہتر۔محض ۵۷ فیصد آبادی بمشکل تعلیم یافتہ ہے اور تعلیم یافتہ سے مراد وہ لوگ ہیں جوصرف قومی زبان میں اپنا نام لکھ سکتے ہوں۔اس ملک کے مسائل بھی ازل سے یکساں ہیں اور سالہاسال سے ہم گھوم پھر کر اسی جگہ آکھڑے ہوتے ہیں جہاں ۱۹۴۷میں کھڑے تھے۔وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام سے قابل، دانشمند،تخلیقی اور اپنے ملک، علاقے اور خاندان کے حالات و مسائل کو سمجھنے اور ان کو تبدیل کرنے کی سمجھ رکھنے والے طلباؤطالبات مستقل طور پر پیدا نہیں ہوپاتے۔دیہاتی علاقوں میں شرح تعلیم کی صورتحال اور بھی افسوسناک ہے۔ اس افسوسناک صورتحال کی وجوہات بے شمار ہیں اور مختلف تحقیق کاروں اور تجزیہ نگاروں نے مختلف محرکات کی نشاندہی کی ہے جو کہ دیہی علاقوں میں شرح تعلیم اور تعلیم کی ناقص معیار کے ذمہ دار ہیں۔
ضلع چترال البتہ اس حوالے سے دلچسپ تجزئےکا باعث بن رہی ہے کیونکہ چترال ہے تو ایک دیہاتی علاقہ، تاہم پورے صوبہ خیبر پختونخواہ میں شرح تعلیم کے حوالے سے چترال کا درجہ دوسرا ہے ۔۲۰۱۳ میں کی گئی ایک سروے کے مطابق چھ سے دس سال کے بیچ سکول جانے والے بچیوں اور بچوں کی تعداد ۹۸ فیصد ہے جوکہ پورے صوبہ خیبر پختونخوا میں تمام شہروں سے بہتر ہے۔ یہ امر انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ گذشتہ کچھ عشروں سے چترال میں شرح تعلیم میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے تاہم معیار تعلیم کے حوالے سے صورتحال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔یہ امر یقیناًنہایت خوشی کا باعث ہے کہ چترال جیسے پسماندہ اور دور اُفتادہ دیہاتی علاقے کا نام علم دوستی اور شرح تعلیم کے حوالے سے پاکستان کے بہترین شہروں کے ساتھ لیاجاتا ہے ۔مگر یہ جاننا ہر ذمہ دار چترالی اور چترال میں موجود ہر ذمہ دار حکومتی اور انتظامی رکن اور سب سے بڑھ کر تعلیم سے وابستہ افراد کے لیے بے حد ضروری ہے کہ چترال میں تعلیم کا معیارمزید بہتر بنانے کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ اس کی بے پناہ گنجائش بھی موجود ہےاور تعلیم کا شرح، تعلیم کا معیار اور تعلیم کی مقصدیت تینوں الگ موضوعات ہیں ۔ان کو باہم ملا یا جاتا ہے یا ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ نہ صرف نامناسب ہے بلکہ حقیقت کو چھپانے کے مترادف ہے۔

چترال میں گورنمنٹ سکولوں کا معیار ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں نسبتاً   بہتر رہاہے اور چترال سے ۱۹۹۰ کی دہائی  تک آنے والے پڑھے لکھے افراد، انجینیرز، ڈاکٹرزاور دیگر آفیسرز کی ایک بڑی تعداد انہی سکولوں کے کوششوں کی مرہون منت رہی ہے تاہم ۱۹۹۰ کے بعد گورنمنٹ سکولوں کا کردار اس حوالے سے مسلسل کمزور ہوتا جارہا ہے اور اپنے تمام تر وسائل منظم نظام کار اور حکومتی سرپرستی کے باوجود گورنمنٹ سکول اپنی ساکھ قائم رکھنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔۱۹۹۰ کا دور ہی تقریباًوہ دور تھا جب چترال میں سکولوں کا ایک نیا ماڈل متعارف ہوا۔اس ماڈل کے تحت کمیونٹی کے معتبر افراد اکٹھے ہوتے، پوری کمیونٹی کو ساتھ ملاتے اور اپنا ایک سکول قائم کرتے۔ان سکولوں کا کردار چترال میں تعلیم، معیار تعلیم اور با مقصد تعلیم کی ترسیل میں بہت مفید رہاہےاور اس ماڈل کی کامیابی سے متاثر ہوکر چترال کے طول و عرض میں اس طرز کے سکولوں کا ایک جال پھیل گیاجس میں اکثریت کی ملکیت کسی گروپ یا کمیونٹی کی بجائے ایک فرد یا ایک خاندان کی ہوتی اوراس طرح رفتہ رفتہ سکول کاروبار میں بدلنے لگے اور یہ ایک المیہ ہے کہ ان ذاتی سکولوں کی دیکھا دیکھی کمیونٹی کے سکولز بھی کاروبار میں بدلنے لگے۔پرائمری سے سیکنڈری اور سیکنڈری سے کالج اور یہاں تک کہ کچھ سکولز میں پوسٹ گریجویٹ کلاسز بھی متعارف ہونے لگے۔فی الحال چترال کے اندر تعلیمی ادارے پانچ حصوں میں منقسم ہیں۔سب سے زیادہ سکولز اور کالجز گورنمنٹ کی ہیں۔دوسرے نمبر پر لوگوں کے ذاتی سکولز ہیں جو تقریباٌ ہر گاؤں میں موجود ہیں۔تیسرے نمبر پر کمیونٹی کے سکولز ہیں۔ یہ سکولز بھی لوگوں کی عدم دلچسپی کے باعث آہستہ آہستہ ذاتی سکولز بنتے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ مدرسے ہیں جہاں سے صرف مذہبی تعلیم کا حصول ممکن ہے۔پانچویں قسم کے تعلیمی ادارے وہ ہیں جو کسی نامور پرائیویٹ ادارے کی زیر نگرانی کام کرتے ہیں۔ یہ پانچووں نظام معیار تعلیم، اساتذہ کا معیار، انفراسٹرکچر اور وسائل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔

گورنمنٹ سکولوں اور نامورپرائیویٹ  اداروں کی زیر نگرانی متحرک سکولوں کا اپنا ایک نطام ہے جس میں وقت اور ضرورت کے مطابق تبدیلی آتی رہتی ہےاور اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ یا کمیونٹی کے موثر حلقے کچھ خاص کردار ادا نہیں کر سکتے، اس  لیےکہ ان اداروں کی پالیسیاں بہت بڑے لیول پر بنتے ہیں اور اس کے پیچھے ایک مکمل، جامع اور مربوط نظام کار فرما ہوتا ہے۔مدرسوں کا بھی اپنا ایک نظام ہے جس کا تعلق مکمل طور پر مذہب کے ساتھ ہوتا ہے اور دنیاوی تعلیم یا نوکری کے حصول میں ان کا کردار  بہت کم ہے۔ جن تعلیمی اداروں کی جانب ضلعی انتظامیہ یا ایجوکیشن ڈپیارٹمنٹ کی توجہ یا تو گئی  نہیں یا پھر کسی مصلحت کے تحت کردار نہیں نبھایاگیا، وہ ادارے ہیں جن کی اکثریت یا تو کسی ایک فرد کی ملکیت ہیں یا پھر کمیونٹی کے کچھ بااثر لوگوں کے زیر اثر ہیں۔یہ وہ تعلیمی ادارے ہیں جو کہ یا تو لاوارث ہیں یا پھر اپنے مالکوں کے لیے پیسے بنانے کی مشین بن چکے ہیں کیونکہ یہاں پربچوں کی جامع تربیت تو دور کی بات، اکثر سکولوں میں نصاب کو پڑھانے والے اساتذہ تک  موجود نہیں ہوتے۔

اس حوالے سے تحقیق ضلعی انتظامیہ اور ضلعی ایجوکیشن ڈپیارٹمنٹ کے فرائض میں اگر شامل ہے تو ان کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیےاور تعلیمی اداروں کی مناسب اور متواتر جانچ اور سیاسی دباومیں آئے  بغیر تمام تعلیمی اداروں کو معیار تعلیم،انفراسٹرکچر، گراونڈ، لائیبریری، سائنس لیبارٹری،اساتذہ کے معیار اور دیگر بنیادی ضروریات کے حوالے سے ایک خاص معیار برقرار رکھنے کا پابند بنایا جانا چاہییے۔اس حوالے سے سول سوسائٹی کا کردار بھی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ۸۰ فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے اور نہ ہی واش رومز کا مناسب انتظام ہے۔اسی طرح ۷۵ فیصد سے زائد تعلیمی اداروں میں کھیلوں کا کوئی انتظام نہیں۔سند یافتہ اساتذہ اور سبیجکٹ اسپیشلسٹ کا تصور بہت کم سکولوں میں ہے۔لائیبریری اور لیبارٹری تک موجود نہیں اور اگر ہیں تو ان کا مناسب استعمال نہیں ہوتا۔اسی طرح کچھ تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جہاں پہلی جماعت اور بی ایس سی کے طلبہ ایک ہی کیمپس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس سے بے پناہ اخلاقی مسائل جنم لینے کا خدشہ رہتاہے۔بہت سارے تعلیمی اداروں کے پاس مناسب کمرے اور کرسیاں تک موجود نہیں۔سب سے  اہم بات یہ ہے کہ بہت سارے تعلیمی اداروں میں کلاس ہشتم(8th) کا کورس اس لیے نہیں پڑھایا جاتا تا کہ بچے نہم (9th)کے بورڈ امتحانات کی دو سال تیاری کریں اور زیادہ نمبر لے آئے۔اس طرح طلبہ ایک مکمل کورس کو چھوڑ کر آگے چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کلاس ہشتم(8th) کا کورس ضروری ہی نہیں تو پھر موجود ہی کیوں ہے ؟ اور اگر موجود ہے تو اس کو پڑھے بغیر آگے جانے والے طلبہ کیا مشکل چیزوں اور کنسیپٹس کو صحیح طور پر سمجھ پائیں  گے ؟ نمبروں کے پیچھے بھاگنے کا یہ رجحان اس لیے بھی خطرناک ہے کہ اس دوڑ میں تعلیم کا اصل مقصد کہیں فوت ہوجاتا ہے اور طلبہ نمبر حاصل کرنے کو ہی تعلیم کا مقصد سمجھنے لگتے ہیں۔مزید یہ کہ ان تعلیمی اداروں کا فیناشیل آڈٹ بھی ہر سال ہونا چاہیے۔اس کے علاوہ بھی بہت سارے مسائل ایسے ہیں جن کی طرف انتظامیہ کو متوجہ ہونا چاہیے۔مجھے ذاتی طور پر چترال کے طول و عرض میں سکولوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اورشاید ایک بھی سکول ایسا نہیں تھا جہاں جاکر کسی بھی حوالے سے آپ کو اطمینان حاصل ہو۔ کئی سکولوں میں بچے ٹاٹ پر بیٹھے ہوئے ملے تو کئی سکولوں میں کرسیاں گرد سے اٹے ہوئے اور کمرے کی کھڑکیاں، دروازے اور سیلنگ ٹوٹے ہوئے۔ ایک سکول ایسا بھی تھا جہاں بچے کیچڑ میں لت پت اینٹیں بنانے میں مصروف تھے۔یاد رہیں یہاں بات ان تعلیمی اداروں کی ہورہی ہے جو یا تو کوئی فرد چلا رہا ہے یا پھر کمیونٹی کے کچھ معتبر افرادمل کر چلارہے ہیں۔یہ خود کمیونٹی کے اندر موجود ہیں اور اکثر طلبہ والدین سے خصوصی فرمائش کے ذریعے اپنے سکولوں تک لا رہے ہوتے ہیں۔یہ رجحان بعض علاقوں میں اتنا مقبول ہے کہ اکثر بچے پیدائش سے پہلے ہی ایک یا دوسرے سکول میں داخل ہوچکے ہوتے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ والدین پھر مڑ کر یہ دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے کہ آیا بچے کو مناسب ماحول اور مناسب تعلیم میسر ہے بھی یا نہیں۔انتظامیہ اور محکمہء تعلیم کا تو گویا یہ کام ہی نہیں۔

اس بات کا احساس ہر فرد کو ہونا چاہیے کہ تعلیمی اداروں کے لیےمعیار مقرر کرنے سے نہ صرف ہمارے بچوں کی تعلیم پر مثبت اثر پڑے گا بلکہ خود تعلیمی اداروں کو بھی اس کا ثمر ملے گااور جب تک سکول کا بلڈنگ مناسب نہ ہو،جدید طریقہ تدریس رائج نہ ہو (جووقت اور ضرورت کے مطابق بدلتا رہتا ہے)،سند یافتہ اور تربیت یافتہ اساتذہ موجود نہ ہو(اساتذہ کی ٹریننگ بھی ایک مستقل عمل ہونا چاہیے)، اساتذہ کی تربیت کا جامع  نظام موجود نہ ہو اور بچوں کی نصابی اور غیر نصابی تربیت کے لیے وسائل  کا مناسب انتظام موجود نہ ہو اور تعلیمی ادارے کے پاس مناسب مالی وسائل  کا فقدان ہو تو اس کا مکمل منفی اثر صرف طالب علموں پر پڑتاہےاور ان تمام پہلووں پر توجہ یئے بغیرہمارے بچیوں اور بچوں کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مقابلے کے لیے تیار نہیں کیا جاسکتا۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے