سنو لیپرڈ کو بچانا کیوں ضروری ہے؟

کسی بھی جانور کو بچانے کا عمل غور طلب ہے۔ کیونکہ ہر مخلوق اور ہر ایک نسل رب کائنات کی تخلیق کا حصہ، دنیا کی خوبصورتی کی وجہ ، اور انسانوں کے لیے تعلیمی، تاریخی، سائنسی، تفریحی اور ثقافتی طور پر اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مر جانا یا کسی خاص نسل کا ختم ہوجانا یقیناٌ ایک فطری عمل ہے لیکن جس رفتار سے گزشتہ کچھ سالوں میں مختلف جانوروں کی نسلیں صفحہء ہستی سے مکمل طور پر مٹ چکی ہیں یہ تشویشناک ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسکی وجہ قدرتی نہیں بلکہ انسانی عمل کا نتیجہ رہا ہے۔ اور نتیجتاٌ انسان بھی گھاٹے میں ہی رہا ہے کہ اس وجہ سے وقوع پزیر ہونے والے ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے دنیا میں موجود ہرنسل غیر محفوظ ہوتا جارہاہے۔

ختم ہونے کے خطرے سے دوچار جانوروں میں شامل ایک ایسا جانور بھی ہے جس کا تعلق خصوصاٌ پہاڑی علاقوں سے ہے۔گھنے اور رنگین بالوں میں ملبوس،اور نسبتاٌ بڑے بڑے پیر جو برفیلے رستوں پر چلنے کے لیے بہترین جوتوں کا کام دیتے ہیں،اور انتہائی طاقتور ٹانگیں جن کی بدولت پچاس فٹ تک کودنے کی صلاحیت رکھنے والا یہ جانور، دنیا کاسب  سے پراسرار جانور مانا جاتا ہے۔ اپنے لمبے اور گھنے دم کویہ پہاڑ وں پر چلتے ہوےٗ توازن برقرار رکھنے اور جسم کے مختلف حصوں کو پہاڑوں کی سخت سردی سے بچانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔یہی پاکستان کا قومی پریڈیٹر یا شکاری جانورہے اسے سنو لیپرڈ یا برفانی چیتا کہا جاتا ہے ۔ برفانی چیتا پہاڑی علاقوں،بشمول چترال کی پہچان اور ہمارے ماحولیاتی ورثے کاخوبصورت ترین حصہ ہے۔

پہلی مرتبہ برفانی چیتا ایک ڈاکیومنٹری کے ذریعے دنیا میں متعارف ہوا جب بی بی سی والوں نے ایک نہایت خوبصورت فوٹیج  کے انداز میں دکھائی کہ جس میں برفانی چیتا اپنے شکار کا پیچھا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور چٹانوں کے اوپر سے کودتے ہوئے نہایت مہارت کے ساتھ مارخور کا شکار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ برفانی چیتے کی یہ ویڈیو تاریخ میں پہلی بار دیکھی جارہی تھی اور یہ مناظر چترال کے سنگلاخ چٹانوں کی تھیں۔ اس سے پہلے برفانی چیتا ایک معمہ تھا جو صرف کہانیوں میں پایا جاتا تھا۔ چترال کی روایتی کہانیوں میں بھی برفانی چیتے کا ذکر بہت رہا ہے۔ ایک کہانی بہت مشہور ہے کہ ایک آدمی پہاڑوں میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کی غرض سے گیا ہوا تھا۔ واپسی پہ ایک نہایت مشکل موڑ پہ برفانی چیتے سے انکا سامنا ہوا۔اس آدمی نے چیتے کو مخاطب کرکے کہا کہ اے پہاڑوں کے بادشاہ مجھے رستہ دے تو چیتا جھٹ سے پہاڑ کے ساتھ ٹیک لگا کہ کھڑا ہوگیا اور وہ حضرت بآسانی وہاں سے گزر گےٗ۔یہ اور اس قسم کی بہت ساری کہانیاں ہیں جو ہمارے جانوروں کے ساتھ تعلق کے حوالے سے ایک بالکل مختلف سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ گویا برفانی چیتا دشمن جانور نہیں۔اور اس کو کس حد تک ایک معزز مقام دیا گیا ہے۔خیر یہ ایک الگ بات ہے اور اس حوالے سے تحقیق دلچسپ تجزےٗ کا باعث بن سکتا ہے۔

برفانی چیتاانسانی آبادی سے بہت دور اور ایک الگ تھلگ رہنے والا جانور ہے اس لیے بہت کم لوگ اسے دیکھ پاتے ہیں۔ خود بی بی سی والے کئی سال کی کوششوں کے بعد اسکو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوےٗ تھے۔اور یہی وجہ ہے کی ان کی تعداد کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 3500 سے 7000 برفانی چیتے ہیں جو وسط ایشیا اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں پاےٗ جاتے ہیں جبکہ کوئ 700 مختلف چڑیا گھروں میں قید ہیں۔ان میں سے اندازاٌ 200 پاکستان کے شمالی علاقوں اور چترال میں پاےٗ جاتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں کی بات کی جاےٗ تو دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے پاکستان اور وسطی ایشیا میں آتے ہیں۔ اور برفانی چیتے کو پہاڑوں میں رہنے والا سب سے اہم اور سب سے خوبصورت جانور مانا جاتا ہے۔ اس کو پہاڑوں کی شان مانا جاتا ہے۔ اور دنیا بھر میں اس کی نسل بچانے کے حوالے سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود برفانی چیتا نایاب جانوروں کی فہرست میں شامل ہے اور اس کی پوری نسل معدومیت خطرے سے دوچار ہے۔

بہت ساری محرکات پر بحث ہورہی ہے جن کی وجہ سے اس جانور کی نسل کو خطرات لاحق ہیں۔ ان میں انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی، برفانی چیتے کی قیمتی کھال کے لیے اس کا شکار اور مال مویشیوں پر حملے کی وجہ سے اسکو مار دینا شامل ہیں۔ مگر سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ برفانی چیتے کی خوراک کا ذریعہ مارخور ہے اور خود مارخور کی نسل میں بے پناہ کمی واقع ہورہی ہے۔ کیونکہ مارخور جس کا بے تحاشا شکار کیا جارہا ہے۔ خاص کر چترال کے اندر آج کل یہ ایک فیشن بنا ہوا ہے کہ ہر دوسرا نوجوان شکارکی غرض سے پہاڑوں کا رخ کرتا ہے اور وائلڈ لائف والے خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ مارخور کی نسل ایک اندازے کے مطابق 50 فیصد کم ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ برفانی چیتے کے لئے خوراک کا حصول زیادہ مشکل ہوا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ اس وجہ سے ان کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئ ہو۔جتنی محنت آج کل کے نوجوان مارخور کو ڈھونڈنے، اس کے رستوں کو ناپنے اور اس کو مار گرانے کے حوالے سے پلاننگ میں گزاردیتے ہیں اس کا آدھا وقت بھی اگرہمارے اس ورثے کو بچانے کے لےٗ صرف سوچنے میں گزارے تو شاید آنے والی نسلیں بھی اس پراسرار مخلوق کو دیکھ پاےٗ۔کوششوں سے سنو لیپرڈ کی نسل کو درکار خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ اورتباہی کے اس عمل کو روکا جاسکتا ہے کیونکہ امریکہ میں شروع ہونے والی ایسی کوششوں کے نتیجے میں ختم ہونے کے خطرے سے دوچارجانوروں میں سے 99 فیصد کی نسلیں بچائی جاچکی ہیں۔پھر ایک کوشش، یہاں، کیوں نہیں؟

جو دل رکھتے ہیں وہ سمجھیں گے۔جو سمجھیں گے وہ خیال رکھیں گے۔ اگر خیال رکھیں گے تو مدد کریں گے۔اور مدد کریں گے تو ہی بچا پائیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے