چترال اور چترالیوں کو درپیش سب سے بڑا چیلنج! 

چترال نہایت دور اُفتادہ، پسماندہ اور دنیا کے نقشے میں تقریباً  بہت ہی محدود علاقہ ہونے  کے باوجود ماحولیاتی تبدیلی کے عوامل کو جلا بخشنے میں دنیاکے دیگر علاقوں میں بسنے والے اربوں انسانوں سے کسی صورت کم نہیں ہے۔یہ دنیا بوڑھی ہوچکی ہے اوراس حقیقت کو سمجھناتمام انسانوں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے تاکہ وہ زمین کے وارث کے طور پر اس کی مناسب دیکھ بھال کرسکے۔مہذب معاشروں میں بوڑھوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کیوں کہ یہ مزاج  کے حوالے بہت حساس ہوتے ہیں اور بات بے بات ان کے موڈ کے بگڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔با لکل اسی طرح کچھ سالوں سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ اس دنیا کا بھی مزاج بگڑا ہوا ہے اور طرح طرح کے قدرتی آفات کا ہمیں تواتر کے ساتھ سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق تمام قدرتی آفات کا موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ زلزلہ اور سونامی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی اسی وجہ سے ہے ۔موسم کے اس بگاڑ میں کتنا عمل دخل انسان کا ہے اس بات سے نا آشنا ہم دنیاکی تباہی میں اپنا حصہ مسلسل ڈالتے جارہے ہیں۔
وہ ادارے اور سائنسدان جو اس زمین کابغور جائزہ لیتے آ رہے ہیں کے پاس یقینی شواہد ہیں کہ زمین کا اوسط درجہ حرارت واضح طور پر بڑھ چکا ہے اور یہ کہ ہماری زمین دن بہ دن گرم ہو رہی ہےاور اس کا سب سے بڑا سبب انسانی سرگرمیاں ہیں خصوصا نامیاتی ایندھن کا جلانااور اس  کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گرین ہاؤس گیسززمین کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔موسمیاتی تبدیلی انسان اور اس دنیا کے لیے انتہائی خطرناک چیلنجز لے کے آرہا ہے جس کا اندازہ ابھی سے کیا جاسکتا ہے۔ تیزی سے گھٹتے گلیشیرز،مسلسل بڑھتا ہوا سمندر کا سطح،ہیٹ ویو ، قحط ، نئی بیماریاں، غیر معمو لی بارشیں اورسیلاب، معاشی مسائل، پانی کی کمی کے سبب جنگوں کا خدشہ اورہیٹ ویو کے نتیجے میں جانوروں اور انسانوں کی غیر معمولی اموات اس ماحولیاتی تبدیلی کے خوفناک ترین چیلنجز میں شامل ہیں۔
گلوبل وارمنگ کی بدولت گلیشیرز کے پگھلاؤمیں بھی اضافہ ہوا ہےاور اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ گلیشرز کے ذخائر گزشتہ چار دہایوں میں کس رکارڈ تیزی سے گھٹے ہیں۔ہمارے پاس چترال یا گلگت کی تصاویر تو نہیں ہیں لیکن ارکٹک، ٹندرااور الاسکا کی مختلف تصاویر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے گلیشیرز کے ذخائر کی حالت بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہو گی بلکہ ہمالیہ ، ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑوں میں سیٹلائٹ تصاویر میں واضح طور پر دیکھابھی جاسکتاہے کہ ہر سال نئی جھیلں بن رہی ہوتی ہیں اور گلیشیرز کی سطح مسلسل گھٹتی جا رہی ہے۔ یہ بات  اس وقت اور تشویشناک ہوجاتی ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا شکار ملکوں میں آٹھویں نمبر پر ہے  اور  خصوصاً پہاڑی علاقوں   کے حوالے سے اگر ہم دیکھیں تو شاید گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ نقصان چترال اور گلگت  بلتستان کو ہورہاہے،اس کی ایک نہیں کئی ساری جھلکیاں ہم گزشتہ تیرہ سالوں میں دیکھ چکے ہیں۔
انسانوں اور زمین کے درمیان تعلق انتہائی  اہم اور انتہائی  پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔جہاں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے وہیں یہ سول سوسائٹی، مذہبی حلقوں اور میڈیا کا بھی اولین فرض ہے کہ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ یہ دنیا  اللہ رب العزت کی طرف ایک امانت کے طور پر ہمیں ملی ہے ۔یہ امانت اگر بہتر نہیں تو اسی صورت میں آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔کئی پرندے ، جانور اور پودے ایسے ہیں جو صرف انسان کی بے حسی کے بھینٹ چڑھ کراپنی نسل مکمل طور پر کھوچکی ہیں۔اور کئی ایسے ہیں جواپنی پوری نسل عنقریب کھونے والے ہیں۔ ان مخلوقات کو بچانے اور ماحول کو بہتر بنانے کے  حوالے سے ہم میں سے ہر ایک کو ڈالنا ہوگا ۔
خصوصاً چترال کی بات    کی جائے تو چند چیزیں ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ چترال میں زندگی کا دار و مدار سو فی صد گلیشرز کے پانی پر ہے۔اس لیے اگر چترال میں قدرتی حیات اور انسانی زندگی کو محفوظ بنانا ہے تو ان گلیشرز کو محفوظ بنانا ہوگا۔ورنہ ان گلیشیرز کے پھٹنے سے ہونے والی انسانی جانوں اور املاک کی تباہی ایک طرف، خدشہ ہے کہ چترال نامی اس خوبصورت علاقے اور ان پہاڑوں کے دامن میں بسنے والی عظیم لوگوں اور ان کے منفرد رسم و رواج کا صرف نام ہی زندہ رہےگا۔کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اگر گلیشیرز کے پگھلنے کا رفتار یہی رہا تو شاید اگلے ۳۵، ۴۰ سالوں میں چترال میں کوئی گلیشیر نہیں بچے گا۔
ان گلیشیرز کو بچانے کے لیے سب سے پہلے چترال سے بھیڑ بکریاں پالنے کا رواج مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کا کردار سب سے بڑھ کر ہے۔ سخت قانونی کار روائی  کے ذریعے گجر کمیونٹی کو مکمل طور پر روکا جائےتو عام لوگوں کے لیے ممکن ہی نہیں رہے گا کہ وہ بکریاں پال سکے۔خیبر پختونخوا گورنمنٹ کی طرف سے اقدامات ضرور نظر آرہے ہیں مگر ان کے اقدامات میں  اداروں کے درمیان کواورڈنیشن  کی کمی نظر نہیں آتی ہے۔ صرف  بونی کے اندر کم ازکم ڈیڑہ لاکھ روپے ماہانہ واچرز کے تنخواہ کی مد میں جاتے ہیں۔ان واچرز کا کام پہاڑوں اور چراگاہوں کو آباد کرانا ہے مگر جب تک بکری پالنے پر پابندی نہیں لگائی جائے گی  تو چراگاہوں کودوبارہ آباد کرانا ان دس واچرز کے لیے ممکن ہی نہیں۔دوسری اور انتہائی اہم بات جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے ہے۔ پودا لگانے کو ۱۴۰۰ سال پہلے ہمارے نبی اکرم  حضرت  محمدﷺ نے صدقہ جاریہ قرار دیا ہے تو یہ ہم پر فرض ہے کہ کم از کم اس عمل کو تندہی سے آگے بڑھائے ۔تیسرا کام ماحول کے متعلق عوام ،خاص کر بچیوں اور بچوں کی ذہن سازی کے حوالے سے ہے اور اس سلسلے میں سب سے اہم کرداراساتذہ،مذہبی حلقے اور سول سوسائٹی ادا کر سکتی ہے۔ایک اور اہم کام،جو ہوسکتا ہے محض ہماری خواہش ہو،یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ چترال کے اندر شاپنگ بیگ کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کرے۔ماحول کی بہتری کے حوالے سے ہماری دیگر خواہشات میں بڑھتی آبادی پر کنٹرول،چترال میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر کنٹرول، گھروں کی تعمیر میں ٹن شیٹ کا استعمال ترک کرکے ماحول دوست طریقے اپنانااور ماحولیاتی مضامین کو نصاب کا مستقل حصہ بنانا شامل ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے