فوجی چیک پوائنٹس اور عوامی احتجاج

سن ۲۰۰۶ کے اواخر تک پورے سوات میں مقامی پولیس اور فرنٹیر کور/ کنسٹبلری کے گنِے چُنے چیک پوائنٹس کے علاوه پاکستان آرمی کا کوئی ایک بھی چیک پوائنٹ نہیں تھا۔تاہم جولائی ۲۰۰۷ میں لال مسجد اپریشن کے بعد تحریک نفاذ شریعت کے بانی ملا صوفی محمد اور سوات میں موجود مقامی طالبان کمانڈر ملا فضل الله کےکھلے عام حکومت کے خلاف بغاوت اور دوسرے اداروں اور اہلکاروں پر حملے اور دھمکیوں، مقامی طالبان کی طرف سےبڑھتی ہوئی خراب صورت حال ، شریعت محمدی کے بانی مولانا صوفی محمد کے اعلان جنگ اور فضل الله کے حکم کے مطابق جولائی ۲۰۰۷ میں سوات پولیس کی ایک گاڑی پر پہلا باضابطہ خودکش حملہ کر دیا گیا۔جس میں پولیس کے کم ازکم چار اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔اس کے بعد سوات میں ایسی بدترین صورت حال پیدا ہوگئی ،جس کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا ازالہ ممکن نہیں۔اس خراب صورت حال کے نتیجے میں جولائی ۲۰۰۷ سے فروری۲۰۰۸ تک کے قلیل مدت کے دوران سوات میں مقامی سیکیورٹی اداروں کے کئی چیک پوائنٹس کے علاوه پاکستان آرمی کے بھی بے شمار چیک پوائنٹس قائم کیے گئے۔اور سیکورٹی کے کیلیے بڑے پیمانے پر اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود سوات کے حالات روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے گئے اور اس دوران مقامی لوگوں کی حمایت اور طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت کے نتیجے میں مختصر عرصے کے دوران ملا فضل الله اور مولانا صوفی محمد کے ساتھیوں نے مختلف پولیس اسٹیشنوں اور سیکیورٹی اداروں کے کیمپوں کو نشانہ بنانے کیساتھ سکولوں کالجوں ،ہسپتالوں ، سیاسی و سماجی کارکنوں، سرکاری و غیر سرکاری دفاتروں ،پلوں ، بازاروں ، ہوٹلوں اور دوسرے مختلف مقامات کو نشانہ بناتے رہے۔اور پے درپے حملوں کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے پورے سوات کو لہو لہان کردیاگیا۔اور مقامی و غیر مقامی طالبان نے مینگوره کے علاوه ملحقہ علاقوں کبل، ڈھیرئی اور دوسرے علاقوں کو اپنے قبضے میں لیتے ہوئےچوری ڈکیتی،اغوا براے تاواں، ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے غیر انسانی سلوک میں اضافہ کر دیے۔اور راتوں کو باقاعده مسلح گشت کرتے ہوئے اپنے اور اپنے طالبان ساتھیوں کی جنسی تسکین کیلیے بچوں اور بچیوں کو بھی اغوا کرکے مختلف مقامات پر قائم کیمپوں میں پہنچانے کاعمل شروع کر دیے۔مقامی طالبان کی اس بڑھتی ہوئی طاقت اور مقبولیت کے باعث سوات کے ملحقہ علاقوں میں موجود دوسرے طالبان گروپس بھی سوات آنا شروع ہو گئے اور طالبان کی طرف سے پرتشدد کاروائیوں میں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا۔اس سارے صورت حال کے نتیجے میں جب سوات اور دوسرے علاقوں میں پاک فوج اور دوسرے سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی کا سلسلہ شروع ہوگیا تو فوجی جوانوں اور دوسرے سیکورٹی دستوں پر حملوں کا سلسلہ بھی تیز ہوتا گیا۔جس کو مدنظر رکھتے ہوے فوج کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ کرتے ہوے چیک پوائنٹس کی تعداد بڑھا دیے گیے۔اور اس دوران سیکورٹی اداروں کو بے پناه جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔اور سیکیورٹی اہلکاروں اور دوسرے ریاستی اداروں پر ۴۰ سے زائد خودکش حملے اور ۶۰ سے زائد ریموٹ کنٹرول دھماکےکیے گیے۔جس میں مختلف فوجی، پولیس ، ایف سی کے اہلکار شہیداور زخمی کر دیے گیے۔۔اس دوران دوسرے ریاستی ادروں کے علاوہ نہ صرف پولیس کو مفلوج کرکے رکھ دیا گیا بلکہ عدالتوں اور دوسرے اہم فیصلوں کے علاوہ ایسے ریاست مخالف اقدامات کرتے رہے جو ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں آتے ہیں۔۔اور عدالتیں چلانے اور دوسرے معاملات نمٹانے کیلیے باقاعده نظام وضع کیا گیا اور سوات کے مختلف علاقوں کبل،مٹہ چارباغ،خوازه خیلہ، پیوچار اور دوسرے مقامات پر اپنے کیمپس اور عدالتیں قایم کرتے ہوے مختلف طالبان کمانڈرز اور طالبان اہلکار عوامی اور دوسرے سماجی معاملات نمٹاتے رہے۔اس غیر متوقع حالات اور ان عدالتوں کے فیصلوں کے دوران درجنوں کی تعداد میں مقامی لوگوں کو بے دردی سے قتل کرکے لاشوں کو چوکوں میں لٹکا دیا گیا اور درجن سے زیاده مرد وخواتین کو کوڑے مارنے کے علاوه سرعام بدترین قسم کی سزائیں دی گئیں۔ان نام نہاد شرعی عدالتوں کے فیصلوں کے نتیجے میں مختلف صحافیوں کو گولیاں ماری گئی۔مختلف ٹی وی اور کیبل اپریٹرز کو کو دھمکیاں دیتے ہوئےچینلز بند کر دیے گیے،موسیقی اور دوسرے ادبی پروگرمات پر پابندی لگا دی گئی،شرپسندوں کے اپنے ریڈیو اسٹیشنوں کے علاوه تمام ریڈیو اسٹشنوں کے نشریات ختم کر دیے گیے اور اپنے ریڈیوز پر کھلے عام اعلانات کرتے رے، سرکاری اہلکاروں اور حکومت نواز شخصیات کے نماز جنازوں میں شمولیت پر مکمل پابندی لگا دی گئی، پولیس اہلکاروں، خواتین کونسلرز، لیڈی ٹیچرز، فارسٹ افیسرز، ہوٹل منیجرز اور دوسرے ملازمین سے براه راست طالبان کو زبردستی استعفے دلواے گئے۔ جن کے اشتہارات مختلف اخباروں میں چھپواے گئے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں قتل اور اغوا کی دھمکیاں دی گئی۔داڑھی نہ رکھنے اور ٹوپی نہ پہنے پر کئی بااثر شخصیات کی تذلیل کر دی گئی، مختلف باربر شاپس کو بند کر دیا گیا ،مختلف اڈیو ، ویڈیو اور سی ڈیز سنٹرز کو جلا دیا گیا، سیدو شریف ،مالم جبہ،مدین، اور میاندم میں آثار قدیمہ کے مختلف مراکز کو بموں سے اڑا دیا گیا۔مختلف سرکاری و غیر سرکاری املاک کو برباد کرنے کیساتھ ۲۵۰ کے قریب زنانہ مردانہ سکولوں کو نذر اتش کر دیا گیا۔مختلف بنکوں اور ۴۰ کے قریب پلوں کو اڑا دیا گیا، چھوٹے بڑے کارخانوں اور سیاحتی مقامات کو تالے لگاے گیے مختلف نجی و غیر نجی سکولوں کی بندش کی وجہ سے طلبا و طالبات زیور تعلیم سے محروم ہو گئے۔سیاحت،جنگلات،باغبانی، دستکاری، ماہی گیری اور دوسرے شعبے نہ صرف ختم کر دیے گئے بلکہ امن خوشحالی ، ترقی اور تعلیم کی دوڑ میں بھی سوات کو مکمل طور پر پیچھے کی طرف دھکیل دیا گیا۔۔۔۔۔ اس ساری صورت حال کے نتیجے میں سوات کے عوام کو کھربوں روپے سے زائد نقصان کیا گیا۔اس کے علاوہ مرد وخواتین کی ابرو ریزی ، بچوں اور بچیوں کی جنسی استحصال و زیادتی کے علاوہ بزرگ شہریوں کیساتھ نازیبا سلوک کے باوجود مجال ہے کہ کوئی مقامی تنظیم، افراد ، نمائندگان یا گروپ سوات میں طالبان کے خلاف آواز اٹھاتے ہوے مظاھره یا احتجاج کر دے۔۔۔لیکن جب فوج اور دوسرے سیکیورٹی اداروں نے دن رات جانی ومالی قربانی دینے کے بعد سوات کو شرپسندوں اور دہشتگردوں سے پاک کرتے ہوئے، سوات کی رونقیں بحال کرنے میں آپنی تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے معمولات زندگی بحال کر دیے اور سوات کو ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنا دیا۔تو حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوے مکمل فوج کا انخلا ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔اور سوات اپریشن کے کئی سال گزرنے کے بعد گزشتہ ہفتے آرمی کی کیمپ پر والی بال کے میچ کے دوران ایک بار پھر دہشت گردوں کی طرف سے ایک اور خود کش حملہ کرکے امن کی صورت حال کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کی گئی۔جس کے نتیجے میں آرمی افیسرز سمیت کئی جوان شہید اور متعدد زخمی ہوئےجوکہ پاک فوج کیلیے ایک امتحان اور چیلنج سے کہیں کم نہیں ۔جس کے باعث فوج اور دوسرے سیکیورٹی اداروں نے حکمت عملی کے طور پر اور علاقے کو مزید تباہی اور تخریب کاری سے بچانے کی عرض سے اپنی ڈیوٹیاں مزید تیز کرتے ہوۓ معمولات زندگی بحال کرنے کیلیے روز شب محنت کرکے مختلف مقامات پر قائم اپنی چیک پوائنٹس پر چیکینگ سخت کر دیے۔تو سوات کے تمام باسیوں پر یہ فعل ناگوار گزری اور وہ طالبان دور کے سارے حالات و مشکلات بھول کر اچانک چند مقامی شرپسند عناصر و افراد کے ایما پر فوج کی اس کوشش کو ”فوجی تشدد“ کا نام دیکر فوج اور دوسرے سیکیورٹی اہلکاروں کے چیک پوئنٹس کے خلاف پلے کارڈ اور بینرز اٹھاۓ احتجاج اور مظاہرہ شروع کر دیے۔ جوکہ ناگفتہ بہ حالات کے مطابق نہایت نامناسب اور صد قابل افسوس اور انتہائی نامناسب عمل ہے۔اور اس عمل کی جتنی بھی مزمت کی جاۓ کم ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف فوج کے خلاف نفرت کی ہوا پھیلی بلکہ سیکیورٹی اداروں کے وقار کو بھی نقصان پہنچا ہے اور ملکی و قومی سطح پر بھی فوج کی کردار اور کارکردگی پر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔۔فوج کے خلاف نفرت پھیلانے والے افراد اور نازیبا الفاظ کے بینرز بردار اور اشتعال انگیزی کے مرتکب افراد کی نشاندھی اور تحقیقات ہونی چاہیے۔۔ کیونکہ اس سارے معاملے اور نامناسب فعل میں شامل طاقتوں کی نشاندہی پاک فوج اور دوسرے سیکیورٹی اداروں کیساتھ ہم سب کے مشترکہ مفاد میں ہے۔

Print Friendly, PDF & Email