طاقت کا سر چشمہ

ایک زمانہ تھا جب عوام میں سیاسی سماجی شعور نہ ہونے کے برابر تھا، انہیں ملکی حالات و واقعات اور سیاسی چال چلن اور دوسرے اندرونی و بیرونی مکر وفکر کا صحیح اندازہ بالکل نہیں تھا۔وہ حق پہ ہوتے ہوئے بھی حق کی بات نہیں کہہ سکتے تھے، رائے عامہ اتنی ہموار نہیں تھی۔ہر طرف مسائل و مشکلات کے انبار تھے، زندگی کے ہر شعبے میں موجود تکالیف کو سمجھتے ہوئے بھی اواز نہیں اٹھا سکتے تھے،گاوں اور علاقے میں موجود گنے چْنے افراد کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ مسائل کی نشاندھی کرے یا ان مسائل کے حل کے لیے عملی قدم اٹھائے۔گاوں علاقے اور معاشرے میں موجود افراد پر کسی بڑے صاحب ثروت اور دوسرے اثر روسوخ کے حامل چند اشخاص کی گرفت تھی جو جب چاہیے جس طرح چاہیے۔علاقے کے عوام کو اپنی کسی بھی ذاتی ،سیاسی ،اور سماجی فائدے کے لیے طاقت کے طور پر استعمال کر سکتے تھے۔اور بڑے باریک انداز میں عوام پر اپنی گرفت مضبوط کرکے اپنے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرتے تھے،اور گاوں گاوں میں پھیلنے کے باوجود یہ سارے مافیاز بظاہر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے مگر آپس میں بڑے منظم انداز کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔اور غریب عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے واسطے کسی بھی وقت اکھٹے ہو سکتے تھے۔اور اپنی پرفریب چالبازیوں۔ اعلانات، وعدوں اور مختلف قسم کے جھوٹی قسموں کے ذریعے با آسانی عوام کو ماموں بنا تے تھے۔بولنے کا حق صرف ان مافیاز کو تھا۔غریب چاہتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں سکتا تھا۔جس کی بنا سوائے ان مافیاز کے سار ے عوام ظلم سہتے مرنے میں ہی عافیت جانتے تھے۔ آئین و قانون کس بلا کا نام ہے عریب کو علم نہیں تھا۔ جائز و ناجائز کا کوئی پیمانہ نہیں تھا،ادارے کس مرض کی دوا ہے ؟کوئی نہیں جانتا تھا۔سارے بڑے عہدوں ،اداروں اور محکموں میں ان مافیاز کی حکمرانی تھی ، جو بے غیر کسی خوف و خطر ،حق کو باطل ، ظالم کو مظلوم قرار دے سکتے تھے۔مختصر یہ کہ یہ مافیاز کسی بھی قسم کے جواب دہی اور دباو سے مبرا تھے۔پھر آہستہ سے حالات بدلتے ہوئے یکسر مختلف ہونے لگے،اور عوام باشعور ہوگئی، سانحات واقعات اور حالات سے عوام کو واقفیت ہوتی گئی۔قانون سے ہر کوئی باخبر ہوا۔ حق و ناحق کا پتہ چل گیا،ہرکسی کے ہاتھ دولت کیانبار لگ گئے۔ کسی بھی مسلے کی تہہ تک پہنچنے کی جستجو شروع ہوگئی۔سب کو آواز اٹھانے اور حق مانگنے کی عادت پڑ گئی۔سوالات اٹھائے گئے۔جوابات کی طلب زور پکڑی۔ہر کسی کو آگے آنے کا موقع مل گیا۔اداروں اور محکموں میں ہر کسی کی رسائی ممکن ہوئی عوام ایک دوسرے کے نزدیک اور مافیاز ( مقامی لیڈران ) سچ مچ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کل تک جوعوام کی ضرورت تھی۔ آج انہیں عوام کی ضرورت پڑ گئی،کل تک جس کے پیچھے عوام بھاگتا تھا آج وہ عوام کے پیچھے بھاگتا ہے، کل تک جو عوام کے فیصلے کرتا تھا۔ آج اس کے فیصلے عوام کرتا ہے، کل تک جس کے ہاتھ عوام چومتا تھا۔ آج وہ عوام کے پاوں چاٹتا ہے۔کل تک جس کے ہاتھ میں طاقت تھی۔ آج عوام کے ہاتھ میں وہ طاقت ہے۔کل تک جو وعدوں اور بہانوں اور جھوٹی قسموں سے کام لیتا تھا،آج وہ عملی اقدام پہ یقین رکھتا ہے۔کیونکہ وقت بدل گیا، حالات بدل گئے۔ زمانہ بدل گیا، دور بدل گیا۔ کیونکہ یہ دور یہ زمانہ میڈیا کا ہے جہاں ہر کسی کو پل پل کی خبر کا علم ہے۔ اور یہاں طاقت کا سرچشمہ صرف عوام کے سوا کوئی نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email