ضلع ناتواں

سب ڈویڑن مستوج موجودہ (ضلع ناتواں) ضلع چترال کا و? دور افتادہ و پسماندہ و بدقسمت ترین علاقہ ہے جہاں آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی عوام سہولیات کے لحاظ سے پتھر کے زمانے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔لیکن اس کے باوجود عوام کی اچھی خاصی تعداد زیور تعلیم اور علمی شعور سے آراستہ ہیں ،تاہم اْس تعلیم و شعور کا کوئی کیا کر ے جو اپنی بنیادی حقوق و وجائز مطالبات حاصل کرنے کے کام نہ آئے۔ چونکہ یہ ضلع ناتواں یعنی سب ڈویڑن مستوج رقبے کے لحاظ ضلع چترال کا جتنا بڑا علاقہ ہے اتنے ہی بڑے بڑے مسائل ومشکلات کا گڑھ بھی ہے، چھوٹی بڑی رابطہ سڑکیں ہو یا پل ،بنیادی حفظان صحت کی سہولیات ہو یا بنیادی تعلیمی سہولیات، پینے کا صاف پانی ہو یا بجلی کی ضروریات سب کچھ یا تو سرے سے ہیں ہی نہیں، یا اگر ہیں بھی تو دیکھنے ، دیکھانے ،بلانے اور پکارنے کی حد تک۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے نمائندوں سے زیادہ عوام کی ضمیر فروشی اور ناعاقبت اندیشی کیساتھ ساتھ ذاتی مفاد پرستی ہے یہاں کے عوام کی ذاتی مفاد پرستی کا یہ عالم ہے کہ جوں جوں الیکشن کے دن قریب آتے ہیں توں توں یہاں کے عوام کی بولیاں لگنی شروع ہو جاتی ہیں۔اور جس گھرانے کا جتنا اثر رسوخ ہو اتنی ہی مہنگی بک جاتی ہے۔جس کی بنا اس علاقے کے منتخب نمائندہ گان بھی اگلے الیکشن کے قریب آنے تک بنا کسی ذاتی مجبوری یا کام کے ذاتی مفاد پرست اورضمیر فروشوں کے اس دھرتی میں قدم رکھنا گورا نہیں کرتے۔کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ عوام پہلے سے بک چکی ہیں جوکہ کسی بھی صورت اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتی۔ورنہ کسی نمائندے کا پانچ سالوں تک اس ضلع ناتواں میں ایک بار بھی قدم نہ رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔نمائندوں کی ان غیر سنجیدہ رویوں اور عوام کی ذاتی مفاد پرستی اور ضمیر فروشی کے نتیجے میں یہاں کے غریب عوام جن گھمبیر صورت حال سے دوچار ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں، کہ جولائی ۲۰۱۵ کے تباہ کن اور قیامت خیز سیلاب نے جہاں پورے چترال کے انفرسٹرکچر ، فصلوں ،باغات اور مکانات کو تباہ کیا وہاں اس ضلع ناتواں کے بہت سارے انفرسٹرکچر ،کھڑی فصلوں، باغات، گھر و مکانات اور دوسرے بہت سارے سرکاری و غیر سرکاری املاک کو ستیاناس کرنے کیساتھ کم ازکم دو لاکھ کے قریب آبادی کو روشنی مہیا کرنے والی واحد برقی کفیل یعنی ریشن بجلی گھر کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔اور عوام کی طرف سے مختلف قسم کی بھرپور کوششوں، مظاہروں ،دھرنوں یہاں تک کہ بھوک ہڑتالی کیمپ اور خود سوزی تک کی کوششوں کے باوجود ابھی تک یہ بدبخت بجلی گھر جوں کے توں لاوارث پڑی ہے۔اور عوام کی طرف سے بار بار منت وسماجت اور گزارشات کے باوجود مقامی نمائندے کبھی سٹنیبل ڈیولپمنٹ اجلاس کے قرارداد اورکبھی انرجی ڈیولپمنٹ کنسلٹنٹ کے انتخاب ،کبھی فنڈ کا درینہ مسئلہ توکبھی جنریٹرز کی تنصیب، کبھی ڈیزل کی قلت توکبھی سٹنڈنگ کمیٹی کی اجلاس ،کبھی جی ٹی ایس کمپنی کی ٹینڈر تو کبھی ٹھیکیدار مافیا ، کبھی پیدواری گنجائش تو کبھی لائینوں کی بحالی ،کبھی ٹربائین کی خریداری تو کبھی سازوسامان کی ترسیل، کبھی فنڈز ریلیزنگ تو کبھی سولر پینل کی فراہمی، کبھی چھوٹے پن بجلی گھروں کی مرمت تو کبھی ٹرانسفرمرز کی کیپسٹی توکبھی ان کی خرابی ،کبھی تنصیب تو کبھی ترسیل، کبھی پیڈو توکبھی پیسکو ،کبھی ملکی صورت حال تو کبھی چترال کا نام نہاد امن وبھائی چارہ، کبھی افتتاح اور کبھی معاہدے کا حوالہ دیکر ہر بار عوام کو ماموں بناتے آرہے ہیں، اور ابھی تک کوئی بھی نمائندہ باوجود عوامی مطالبے کیاصل صورت حال سے عوام کو آگاہ و مطمئن نہیں کر سکا ہے۔ ان نمائندوں کی طرف سے اس قسم کیاول فول اوراوٹ پٹانگ رویوں سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ان نمائندوں کے پاس سرے سیاس مسئلے کا یا تو کوئی ادراک نہیں یا پھر کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لیے ہم حکومت وقت کی بے بسی و بے کسی اور مقامی لیڈران کی قابل رحم حالت کو محسوس کرتے ہوئے حکام بالا کے اعلیٰ عہدیدران سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ نئے ضلع کے تمام موجودہ متقاضی مسائل کو محدود وقت تک پس پشت ڈالتے ہوئے حالات ومسائل کے پیش نظر نئے ضلع کا نام ضلع ناتواں رکھنے کی اپنی تمام تر کوششیں بروے کار لائے۔تاکہ مسائل سے دوچار یہ علاقہ مسائلستان اپنی پہچان کھو نے سے بچ سکے۔

Print Friendly, PDF & Email