سوشل میڈیا

سماجی رابطوں کے مختلف ویب سائیڈز کا استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ ان ویب سائیڈزپر لوگوں کا آپس میں تبادلہ خیال ،تصاویر وغیرہ کی اپلوڈنگ ،پیغامات کی ترسیل اور ا یک دوسرے کے لیے جذبات کا اظہار ،اس کے علاوہ مختلف موقعوں پر مختلف قسم کے حالات کی تناظر میں اپنی آرا اور روزمرہ کے معمولات کا تبادلہ معمول کی بات ہے۔لیکن بعض اوقات یہ چیزیں مختلف قسم کے ذہنی اذیت و دباؤ ، بڑے بڑے سانحے اور مشکلات پیدا کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔جس کی بناپر سماجی رابطوں کی ان ویب سائیڈز کے درست استعمال اور قانونی پہلوؤں سے باخبر رہنا اور اخلاقیات وسماجی اقدار کے اصولوں کو مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہیں۔حالات اور اصولوں سے بے خبر ررہتے ہوئے سوشل میڈیا کے استعمال سے معاشرے میں اخلاقی طور پراپنی حیثیت کو کم کرنے کے نقصان کے علاوہ قانونی کاروائی اور جزا وسزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور ایسا ہی گزشتہ روز میرے ایک قریبی دوست کے ساتھ ہوا۔جوکہ سعودی عرب میں کاروبارکر رہے ہیں۔جس کا طیش کی حالت میں بھیجا گیا ایک پیغام سے نہ صرف معاشرے میں مختلف لوگوں کی طرف سے گالیاں سننے کو ملی بلکہ اس کے خاندانی تربیت پر بھی انگلیاں اٹھنے لگے اس کے علاوہ معاشرے میں ملنے والی قدر و عزت کو بھی نقصان پہنچا اور آج اسے معاشرے میں ہر جاننے والا ایک غیر مہذب فرد تصور کر رہا ہے۔ ہوا یوں کہ گزشتہ روز کراچی سے میرے ایک دوست کی کال آئی ،بے وقت کال دیکھ کر پہلے میں نے فون نہ اٹھانے کا سوچا پھر خیال آیا کہ و ہ آج کل گھر والوں کے ساتھ مکمل کراچی شفٹ ہو چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی ضروری کام ہوگا اس لیے میں نے کال اٹنڈ کرتے ہوے گھر والوں کی خیریت کا پوچھ کر کراچی کی حالات کا پوچھ ہی رہا تھا کہ اچانک سے اس نے موضوع تبدیل کرتے ہو ئے دوست کے بارے میں پوچھا جو سعودی عرب میں ہیں۔ غصے سے بولا کیا آپ اسے جانتے ہیں۔میں نے بولا جی باکل جانتا ہوں۔پر کیوں؟ خیر تو ہے۔بولا۔کس حد تک جانتے ہو؟ بہت اچھے طریقے سے۔میں نے جواب دیا۔بہت اچھے انسان ہیں۔اور گاؤں میں بھی میرے اس کے اور اس کے گھر والوں کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔بڑے اچھے،نفیس اور شریف لوگ ہیں۔ یوں میں اس کی تعریف میں بولتا ہی جا رہا تھا کہ اچانک اس نے آسمان سر پہ اٹھاتے ہوئے مذکورہ دوست کو گالیاں دینا شروع کیا۔ دوست کے اس انتہائی قدم اور غیر معمولی جذبات اور غصے کو دیکھ کر میں بھی مذکورہ دوست کو دوست اور قریبی رشتہ بتانے پر شرمندہ ہوکر اتنا غصہ ہونے کی وجہ پوچھا تو اس نے کھل کر وہ الفاظ و جملے اور پیغامات پڑھنا شروع کیا جو عرب والے مذکورہ دوست کی طرف سے اس کو بھی موصول ہوئے تھے۔اس نے کہا کہ میں اس لڑکے کو چھوڑوں گا نہیں۔یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
اور باقی حقیقت جاننا چارہے ہیں تو اس نام کے فیس بک آئی ڈی چیک کر لے سب کچھ آپ پر واضح ہو جائے گا۔ دوست کی اس غیر معمولی رویے اور غصے کو دیکھ کرمیں جوں ہی مطلوبہ نام سرچ کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مذکورہ آئی ڈی اس دوست کی بڑی بہن کی ہے جو کہ کراچی کے ایک اعلیٰ یونیورسٹی میں بہترین ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ ہے۔اس کے ٹائم لائین پر سعودی عرب میں موجود ہمارے اس دوست اور مذکورہ بہن دونوں کی طرف سے ایک دوسرے کو بھیجے گئے ایسے بدترین گالیاں اور ناہنجار قسم کے سکرین شارٹ چسپان ہونے کے ساتھ اخلاقیات سے عاری ایسے ایسے کمنٹس موجود تھے جو کوئی بھی مہذب اور باشعور انسان دیکھنا اور لکھنا پسند نہیں کرے گا اسے دیکھتے ہی میرے رونگھٹے کھڑے ہوئے۔اس بات کا بھی بہت افسوس ہوا کہ ایک اعلیٰ ادارے کی طالبہ ہونے کے ناطے اس قسم کی غلیظ اور غیر شائستہ سکرین شارٹ کو میڈیا پہ لاکر بھائی اور دوسرے احباب کو غصے اور جذبات دلانے اور معاشرے میں اور بھی منافرت پھیلانے کی کیا ضرورت۔ بحیثیت تعلیم یافتہ اور مہذب شہری ان سکرین شارٹ کو فیس بک پر چسپان کرنے سے پہلے مذکوہ بہن کو بھی ایک دفعہ ضرور سوچنی چاہیے تھی کہ اس قسم کی معمولی غلطی اور غیر ذمہ درانہ رویوں سے دوسرے بہت بڑے نقصانات کے علاوہ کسی کی جان بھی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی سعودی والے دوست کے رویے ،غیر سنجیدگی اور نامناسب الفاظ اور گالم گلوچ پر بھی بہت افسوس اور دکھ ہوا جو ایک بہن کے لیے وہ استعمال کر چکے ہیں۔حالانکہ ہمیں اپنے اس دوست سے اس قسم کے نامناسب رویے کی توقع ہرگز نہیں کر رہا تھا۔

Print Friendly, PDF & Email