ٹھیکیدار سے بیلدار تک

بقول ِ محمد کوثر ایڈوکیٹ

تہذیبو تقاضا ہیہ در یارا گے باے پست تہ سور

یاره زوق دیتی چانکھے ایغو غوغاو اوچے غلغل غلط

کہا جاتا ہے کہ شاعروں اور ادیبوں کو ایک جگہ متحد کرنا مینڈکوں کو ترازو کے دو پلٹروں میں ڈال کر تولنے کے مترادف ہے،سوچتا تھا کہ یہ بات شائد کسی زمانے میں مخصوص لوگوں یا کسی خاص ٹولے پہ صادق بھی آتا ہوں لیکن میں بالکل بھی اس کیساتھ اتفاق نہیں کرتا تھا۔اسکی وجہ یہ کہ شاعر و ادیب ہر معاشرے کے اندر موجود کسی بھی قسم کے نیک نامی و بدنامی کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور ہمیشہ سے معاشرے کو سنبھالنے ،طاقت دینے اور افراد کی صلاحیتوں کو منوانے بگڑتے معاشرے کو سنوارنے نوجوانوں کو آگے لانے ،مختلف مکاتب فکر کو قابل قبول پلیٹ فارم مہیا کرنے،ذاتی رنجیشوں کو بھلا دینے ،عزت وتکریم کی فضا پیدا کرنے ،محبت و آشفتگی کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے، اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے، تہذیب و تمدن ثقافت اور دوسرے ادبی روایات کو برقرار رکھنے ، سیاسی معاشی اور معاشرتی رکاوٹوں کو معاشرے پر حاوی نہ ہونے دینے ، تہذیبی روایات اور اقدار کو اپنی اصلی حالت میں نافذ کرنے، انسانی احساسات کو اپنے مخصوص خیالات کے ذریعے اظہار کرنے ، لوگوں میں غور فکر پیدا کرنے، مذہب کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور لوگوں کو دینی معاملات کی طرف راعب کرنے، فکرو فن کے معیار کو ترقی دینے، نوجونواں کے علمی و ادبی صلاحیتوں کو قومی و ملکی سلامتی اور مفاد کیلیے استعمال کرنے کا درس دینے اور نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنےعرضیکہ معاشرے میں موجود سارے نیک وبد حق وباطل میں تمیز و فرق کرنے اور کروانے کے ذمہ دار و علمبردار ہوتے ہیں۔لیکن آج جب سوچتا ہوں تو حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے اور یقینا شاعروں اور ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا مینڈکوں کو ترازوں کے دو پلٹروں میں بٹھانے کے نہ صرف مترادف ہے بلکہ اس سے بھی بڑی کوئی مشکل یا بالکل ناممکن امر ہے اور یہ بات ہمارے موجودہ ادب و تہذیب اور معاشرے کیلیے بالکل پتھر پہ لکیر کی طرح درست اور ہمارے شعرا و ادبا اور ادبی ذمہ داروں پہ صادق بھی آتا ہے۔  اس بات کے واضح شواہد اور ثبوت کیلیے گزشتہ کچھ ہفتوں سے سوشل میڈیا پر چلنے والی نامناسب تحریک اور ٹرینڈ سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کتنے نامناسب  کاموں کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔جہاں نہ کسی کی ادبی زندگی کا خیال ہے نہ نجی معاملات کا،نہ کسی کی عزت نفس کا خیال ہے نہ کسی کی معاشرتی قدر و کردار کا ،کتنی غیر ذمہ درانہ طریقے سے ایک دوسرے پہ ادب کے نام پر کیچڑ اور غلاظت اچھالا جا رہا ہے، اور کتنے ایک دوسرے کی ادبی کردار پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے، کتنی ایک دوسرے کو گالیوں سے نوازا جا رہا ہے، کس طرح غیر مناسب الفاظ کا استعمال ہو رہا ہے۔آخر ہم اپنے اس نام نہاد ادب کا نام لیکر اور گالم گلوج کی نئی روایت کی بنیاد رکھ کر ایک دوسرے کو اور خاص کر نوجوان نسل کو کیا پیعام دینا چا رہے ہیں۔۔ اور کیا یہ ہماری ادبی تنظیمات اور ادب کے ذمہ دران کی ذمہ داری نہیں کہ اس قسم کی غلاظتو ں اور گندگی کو مزید پھیلنے سے پہلے پہلے ٹھکانے لگائےاور آپس کی معمولی چپقلش اور گلے شکووں کو دور کرنے کیلیے عملی اقدام اٹھاۓ۔کیا ہماری ذمہ داری عزلیں ہی لکھنا یا اپنے نام کیساتھ ایک بڑا نام ،بڑا ادیب ، شاعر ،محقق لکھوانا یا صرف ڈھول باجوں کیساتھ محفلیں منعقد کرنے کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر تمہاری عزلیں تمہاری شاعری تمہاری تحقیق تمہارا ادب تمہارے گانے، تمہارے ڈھول باجے، تمہاری ادب دوستی تمہیں مبارکﷲ

Print Friendly, PDF & Email