وہی لوگ وہی روگ

"یہ ایک انتہائی سخت قدم ہے  جوبڑے تردد اور تذبذب کے بعد لیکن اس یقین کے ساتھ لیا گیا ہے کہ ملک کو پارہ پارہ ہونے سے بچایا جائے” ایوب خان

"اس ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے میں نے اپنا بنیادی فرض انجام دیا ہے” یحیٰ خان

"افراتفری اور سنگین بحران کے خطرے کے پیش نظر کارروائی کرنی پڑی” ضیا ءالحق

"مسلح افواج نے آخری چارہ کار کے طور پر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے تاکہ ملک کو مذیدعدم استحکام سے بچایا جاسکے” پرویز مشرف

درج بالا تمام اقتباسات  جمہوری حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے یا انہیں حکومت میں آنے سے روکنے کے بعد جنرل صاحبان کی ابتدائی تقاریر سے لیے گئے ہیں۔ اگر آپ ذرا تفصیل میں جاکر ان تقاریر کو پڑھیں  تو ان صاحبان نے تواتر کے ساتھ سیاستدانوں کو بد دیانت، بدعنوان، نااہل اور ملک دشمن قراردیکر خود کو پر خلوص، پاک،محب وطن اور عوام دوست گردانے ہیں۔  ان کا مشترکہ نعرہ یہی ہے کہ ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا تھا سیاستدانوں نے ملک کا بیڑہ عرق کیا ہوا تھا اور ہمارے چپ رہنے کی صورت میں خدانخواستہ ملک کے ٹوٹ جانے، دیوالیہ ہونے یا دشمن کے نرعے میں جانے کے واضح امکانات موجود تھے۔ یہ کہ ہم مخلص ہیں اور جمہوری روایات کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں اور مذکورہ بالا مسائل پر قابو پاتے ہی حکومت آپ کے نمائندوں کو سونپ کر بیرکوں میں واپس جائیں گے۔

ایوب  سے لیکر مشرف تک  ساروں نے جب  دبنگ انٹری مارے تو  بقول ان کے  خزانہ خالی ہوچکا تھا اور ملکی سلامتی خطرے میں تھی اور فوج ہی واحد ادارہ تھا، جو ملک کو ان بحرانوں سے نکال سکتی تھی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر فوجی آمر نے حقیقی جمہوریت ، آزاد عدلیہ، خاموش انقلاب اور معیشت کی بحالی کا نعرہ لگا کر ملک کو کھڈے لائن لگا دیا۔ کون ظالم انکار کرے گا کہ ایوب کی پالیسیوں کا نتیجہ 22 خاندانوں کی اجارہ داری،  یحیٰی کی مہربانی سقوط ڈھاکہ اور ضیا  و مشرف کی حکمرانی طالبنائیزیشن اور دہشت گردی کی شکل میں ابھی تک مملکت خداد اد کے ماتھے پر ایک کلنگ کی صورت میں  موجود ہیں۔

حقیقی جمہوریت کے نام پر عوامی جمہوریت پر شب خون مارکر فوجی آمروں نے ملک کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس کا ازالہ شاید اس صدی میں ممکن نہ ہو۔ تاریخ  کے ان بتیس سیاہ سالوں نے ملک کے دامن کو دوسری اقوام کے  سامنے داغدار کرنے کے علاوہ ملکی عمومی ذہنیت کو جس طرح زور زبردستی کیطرف راعب کیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ من حیث القوم   ہم جبر کے عادی اور مکالمے سے عاری ہوچکے ہیں اور انکساری، نرم خوئی ، دلجوئی اور رحمدلی جیسے اعلٰی اوصاف رفتہ رفتہ ہم سے دور ہوتے  جارہےہیں اور بے شرمی کی انتہاء یہ ہے کہ پھر بھی سینہ تان کر جمہوریت کو غلیظ گالی دے کر آمروں کو نجات دہندہ قرار دینا ہماری اجتماعی ذہنیت بن چکی ہے۔

ہم کیوں بھولیں وہ دن جب "فم” جیسے عجوبے ہمارے معیشت میں متعارف ہوئے ،  مسلک و مذہب کے نام پر ہمیں تقسیم کیا گیا اور پھر روشن خیالی کے ذریعے ہمارے تہذیب کی دھچیاں اڑائی گئیں اور بدقسمتی کی انتہاء یہ ہے کہ اب بھی چند دانشور سینہ تان کر پوچھ رہے ہیں کہ آپ کی موجودہ جمہوریت سے "ایوبی اقتصادیت”، "ضیائی مذہبیت وجنونیت” اور "مشرفی روشن خیالیت” کاہے کو برے تھے؟  بندہ شرم سے ڈوب نہ مرے تو کیا کرے ۔  جاکے بانکے میاں کے قوالی سن   ناصاحب دماغ کیوں چاٹ رہے۔

آپ مارشل لاء کے اتنے حامی ہو توذرا یہ تو بتا کہ ہر آمر جس حقیقی جمہوریت کا نعرہ لگا رہا تھا اسے متعارف کرانے میں حیل و حجت سے کام کیوں لیتا رہا؟ ۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے ناجائز قبضے کو جائز بنانے کی عرض سے وہ صرف زبانی جمع خرچ ہی کررہے تھے۔ بھول گئے ایوب کے صحافیوں پر تشدد ، ضیا کے مذہبی کوڑے اور مشرف کے عجیب وغریب صدارتی حکم نامے؟۔۔۔ذرا یاد کر۔۔۔

ایک بار سوچ کہ کہیں ہم اسی جگے پر تو نہیں آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے ایوب خان نے سفر شروع کیا تھا۔۔۔ کہیں یہ پکڈنڈی کہہ کر ہمیں دائرے میں تو نہیں گھمار ہے تھے !!! ذرا غور سے دیکھ ہم  تووہیں پر کھڑے ہیں جہان سے سفر شروع کیا تھا  ۔۔۔کچھ بھی تو نہں بدلا ہے ادھر۔ کیا اب خزانہ بھرا ہے؟ کیا ملکی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں؟ کیا حقیقی جمہوریت آچکی؟ عدالتیں آزاد ہیں؟ اور کیا آپ کے بتیس سالہ مارشل لاز کی وجہ سے  شہد و دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں؟

اگر جواب ہاں میں ہےتو آپ کا یوں راتوں رات بندوق اٹھائے شب خون مارنا صحیح تھا ورنہ ایک ہی روگ لیکر کب تک تم لوگ ہمیں الو بناتے رہو گے۔ بس کر  نا  بچے کی جان لے گے کیا۔

Print Friendly, PDF & Email