"یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا”

شعر و ادب سے معمولی شعف رکھنے والے کسی بھی انسان کے لیے جون ایلیاء کا نام انجان نہیں۔ شاید، یعنی ، گمان  جیسی منفرد شاعری اور فرنود جیسا شاہکار نثر بہت کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے اور جون کی تعارف  کے لیے یہ چار کتابیں کم نہیں۔   ان کے علاوہ اہل علم و دانش  جون کی شاعری اور نثر پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔  اس غم پسند شاعر کے اشعار پر تحقیق ہونے کے ساتھ ساتھ اس نثرمیں  تاثیر سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر خود کو "دی جون ایلیاء” کہنے والا خون تھوکتے اس شاعر  کی ذاتی زندگی پر اب تک کوئی مستند حوالہ دستیاب نہیں تھااور پھر اس پیاس کو بجھانے کے لیے امروہی خاندان کی بیٹی شاہانہ آگئی جس نے "چچا جون” نام سے کتاب لکھ کرنہ صرف  امروہی خاندان کی باہم چپقلشوں کو اشکار کیا تو دوسری طرف جون ایلیا ء کی ذاتی زندگی کے بہت سے راز بھی افشا کیے۔ 128 صفات پر مشتمل یہ کتاب ورثہ پبلی کیشن نے شائع کی ہے اور یکے بعد دیگرے  اس کے دو ایڈیشن چھاپ چکے  ہیں۔

شاہانہ ریئس ایلیا ء  ، جس کے ساتھ جون ایلیاء نے اپنے نام کا لاحقہ لگایا تھا،  چچا جون  کے ساتھ کیے وعدے کا پاس رکھتے ہوئے آخر کار جون ایلیاء پر قلم اٹھانے کی جسارت کی ہے اورخط کی شکل میں چچا کومخاطب کرکے وہ سب کہہ دیتی ہیں جنھیں خاندانی پارام پرا کانام دیکر عموما چھپایا جاتا ہے ۔

امروہی  خاندان کی ہاہمی محبتوں کی کہانیوں سے شروع ہونے والی اس کتاب کا اختتام انتہائی دردناک ہے جہاں اپنے دشمن بن جاتے ہیں  اور گھریلو ناچاقیوں کو گھر کی دہلیز سے باہر لے جاکر غیروں کو بھی سنانے لگتے ہیں۔ وہ بھی وقت تھا جب جون ایلیاء  بواسیر کی بیماری میں مبتلا ہونے پر پھولے نہیں سماتے تھے کہ یہی بیماری اس کے بڑے بھائی ریئس امروہی کو بھی لاحق تھی  اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب جون ایلیا اپنے بھتیجوں پر لعنت بیجھ کر گھریلو دولت کی خاطر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ۔

شاہانہ نے جون کو انتہایی ضدی، کاہل اور ڈرامہ باز انسان قرار دیا ہے جو انتہائی غم پسند تھا  اور جا بجا اپنے لیے غم تلاش کرتا رہتا تھا۔ عاشقی ہو یا عائلی زندگی، جون نے ہمیشہ تشنگی، غم اور انسوؤں کو وصل، خوشی اور قہقہوں پر ترجیح دی ہے ۔ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنوں اور چاہنے والوں کے لیے بھی جون کی زبان انتہائی سخت ہوا کرتی تھی وہ قسمت کا مارا ہی ہوتا جو زبان کی غلطیوں والا نثر لکھ کر اصلاح یا شائع  کرنے کے واسطےجون کو بیجھ دیتا یا پھر اس شاعر کی بھرے محفل شامت آتی جو قابل اصلاح شاعری لکھ اس مشاعرے کا رخ کرتے جہاں دی جون ایلیاء بیٹھے ہوتے۔ خود جون نے کہا تھا۔۔۔ "جسے ملیے اسے خفا کیجیے”

کتاب میں   حضرت جون ایلیاء کیان  ناکام عاشقیوں کا ذکرتفصیل سے ہوا ہے  جن کی وجہ سے جون خون کے انسو روتا تھا اور خاندان والوں کی بارہا کوششوں کے باوجود مرتے دم تک عشق اور بوتل جون کی دو اہم کمزوریاں رہ جاتی ہیں۔

شاہانہ ایلیاء نے نہ صرف جون کی خامیوں کا ذکر کیا ہے بلکہ امروہی خاندان کے مردوں کا خواتین پر ڈھانے والے مظالم کا دل کھول کرذکر کیا ہے ۔ بقول مصنفہ ان کی اور جون ایلیاء کی والدہ میں ایک ہی قدر مشترک تھی کہ دونوں اپنے خاوندوں کی ظلم وستم کا روز نشانہ بنتی تھیں۔  کتاب میں اس بات کا ذکر بھی تفصیل سے آیاہے کہ کس طرح امروہہ سے چار بھائی  پاکستان آئے اور ماں اُدھر ترستی رہی اور پھر کس طرح بڑے بیٹے کو ایک نظر دیکھنے کے لیے بیقرار  ماں کی روح کو فرشتے مہلت دیے بعیر قبض کردیا ۔

مشہور کالم نویس زاہد ہ حنا نے جون کو کس حالت میں چھوڑا اور کیسے مرتے دم تک جون اپنی اولاد کو ترستے رہےاور کیسی زاہدہ نے بچوں کو رجسٹرڈ کرتے وقت بھی اُنہیں جون ایلیا کی اولا د کے طور پر لکھنے کے بجائے ولدیت کا خانہ ہی خالی چھوڑدیا۔ اس نازک واقعے کا ذکر بھی تفصیلا اس کتاب میں موجود ہے جو جون کو”یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا” کہنے پر مجبور کرگیا۔  شا ہانہ نے زاہدہ کو ایک بہادر اور صابر عورت قراردیا ہےجو  اتنے عرصے تک جون ایلیاء سے  نباہ  کررکھی جو کہ بقول شاہانہ کسی بھی عورت کے لیے عظیم قربانی سے کم نہیں تاہم جس مرحلے پر زاہدہ نے جون کو گھر میں ہونے والے رنگ و روعن کے بہانے گھر سے نکا لا اس پر شاہانہ غمگین ہوتی ہے ۔

کتاب کا سب سے حیران کن حصہ وہ ہے جہاں محبتوں کے شاعر جون ایلیا اور اس کی لاڈلی بھتیجی شاہانہ کے درمیان خاندانی دولت کے لیے جھگڑا شروع ہوجاتا ہے اور پھر بقول شاہانہ  دی جون ایلیاء نفرتوں کی انتہا کر بیٹھتے ہیں۔ یہ خاندنی عداوت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ  امروہی خاندان کی سب سے لاڈلی بچی ریحانہ کی موت پر بھی جون ایلیا اپنے بھتیجوں سے ملنے اور تعزیت کرنے کی زحمت گوارانہیں کرتے اور مجبوراً شاہانہ کو وہی سوال دھرانا پڑتا ہے  کہ”یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا”

المختصر امروہوی خاندان کے حوالے سے جاننے اور دی جون ایلیاء کو قریب سے دیکھنے کے لیے اس سے بہتر کتاب نہیں مل سکتی۔ اس لیے آپ بھی پڑھیے گاضرور۔

Print Friendly, PDF & Email