اچھی طرزِ حکومت اور ہماری اسلامی روایت

اُس نے اِس یقین دہانی کے بعد کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کیے بعیر خلیفتہ المسلمین کی خدمت میں پیش کی جائے گی، جنگ سے دستبردار ہوکر خود کو حکام کےحوالے کردیا۔ ملزم بلکہ مجرم اور جرم بھی ایسے ایسے کہ رونگھٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ برٰی بن مالک جیسے عظیم المرتبت صحابی کا قاتل، مسلمانوں کا بدترین دشمن اور لشکر فارس کے روح رواں کوامیرالمومنین کے سامنے پیش کیا گیا۔ جرائم کا انبار، خلیفہ کا دبدبہ اور انصاف میں تاخیر نہ کرنے جیسی روایت اس سوچ کوتقویت بحش رہے تھے کہ سامنے آتے ہی حرمزان کا سرتن سے جدا کردیا جائے گا۔ لیکن فاتح عالم نے انسانی بنیادوں پر مجرم سے آخری خواہش پوچھ لی۔ لرزتے ہونٹوں کے ساتھ ایک گلاس پانی کی فرمائش ہوئی جسے چشم زدن میں  پوراکیا گیا۔ پانی ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنے جرائم کی نوعیت کا اندازہ لگا کرحرمزان کو موت آنکھوں کے سامنے نظر آیا اور بمشکل ہمت کرکے کہا "اے ابن خطاب! میں سمجھ رہا تھا کہ پانی پلانے کے بجائے تم مجھے قتل کردوگے” ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ پرسکون طریقے سے پانی پی لیجیے کہ یہ پانی پینے سے پہلے کوئی مصیبت تم تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہ سنتے ہی شاطر مجرم نے پانی زمیں پر پھینک دیا اور کہا کہ اب جبکہ عمرؓ نے یہ پانی پینے کا وعدہ کیا تھا تو مجھے قتل نہیں کیا جاسکتا۔ ایک لمحے کے لیے محفل پر سناٹا طاری ہوگیا اور پھر مجمع نے اس فعل کو دھوکہ قرار دیکر حرمزان کا سر قلم کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن سمرقند سے لے کے ارمینیا اور ایران سے سیریا کے حاکم وقت نے اپنے وعدے کا پاس رکھتے ہوئے مجرم کو آزاد کردیا۔

تاریخ اسلامی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ،جہاں ہمیشہ انصاف، صداقت، ایفائے عہد اور عفودرگزر کا بول بالا رہا ہے ۔ ذرائع آمدورفت اور نقل حمل کی سہولیات نہ ہونے کے باوجود ہزاروں میل کے فاصلے تک پھیلی ہوئی خلافت کے حاکم نے کہیں بھوک سے مرنے والی کتے کی موت کا ذمہ دار خود کو ٹھہرایا ہے۔ تو کہیں خلیفہ وقت قاضی کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوکر اپنے اپر لگے الزامات کا جواب دے رہا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھیس بدل کر لوگوں کی خدمت، اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی ترویج اور عدالتی فیصلوں میں ذاتی پسندوناپسند سے بالاتر ہوکرعدل کرنا یہ وہ عوامل تھے، جنھوں نے اسلامی حکومت کے پھلنے پھولنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور جہاں حکمرانان وقت تاریخی اقدار کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفاد، مالی خرد برد، عیاشی اور ارتکاز دولت کی راہ پر نکل کھڑے ہوتے گئے تو خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی اور مسلمان روبہ زوال ہوگئے۔

دور فاروقیؓ  کا علم رکھنے کے باوجود موجودہ دور میں 57 اسلامی ممالک کے سربراہاں خود کو عمرِفاروقؓ کا وراث قرار دیتے ہوئے چلو بھر پانی میں ڈوب کیوں نہیں مرتے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہمیشہ دل میں کھٹکتا رہتا ہے یا پھر عدم جارحیت، انسانی حقوق، معاشی مساوات اور گڈگورننس کا ذکر کرنے والے صنعتی ممالک عصبیت کی میلی عینک ہٹاکر تاریخ کیوں نہیں دیکھتے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ گڈگورننس میں حکمران عام لوگوں کے سامنے تین گزچادر کے لیے جوابدہ ہوتا ہے نہ کہ تین کروڑ کا خردبرد کرکے بھی دودھ کے دھلے نظر آتے ہیں۔ لوگوں کی جان ومال کا تحفظ، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور عدل انصاف کا معیاری نظام اچھی طرز حکومت کی بنیادی خدوخال ہیں لیکن یہاں انصاف ہے نہ عدل، امن ہے نہ سکوں، قانون ہے نہ مساوات، اخوت ہے نہ انسانیت، مگر پھر بھی ہمارے حکمران خود کو منصف وقت قراد دیتے رہتے ہیں۔ گڈگورننس کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اُن کے سر شرم سے نہیں جھکتے اور آنکھیں بند کرکے عوامی حکومت کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔

انسانی بنیادی حقوق کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ ایک مہربان ماں غربت کے ہاتھوں مجبورہوکر چار بچوں کو زہر دیتی ہے۔ ساری عمر ملازمت کرنے کے بعد پنشن کے حصول میں ناکامی سے دلبرداشتہ باپ خود سوزی کرتا ہے اور چیخ چیخ کر انصاف مانگتے ہوئے تھک کر بے موت مرنے والے تو قدم قدم پر ملیں گے۔  کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری اور رشوت ستانی روز کے معمول بن گئے ہیں اور وعدہ کرکے بھولنا حکمرانوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ پھربھی سینہ تان کر اسلامی حکومت کا دعوی کرتے ہیں! ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت کا کوئی شعبہ قابل اعتبار نہیں۔ قانوں بنانے کی ذمہ داری ہم نے نوابوں، چوھریوں، سرداروں، ٹھیکہ داروں اور آمروں کو سونپ دی ہے تو نافذ کرنے والوں کے اپنے ڈھنگ ہیں اور اُمید کی ہلکی کرن عدلیہ کی شکل میں چند سے پہلے جو نمودار ہوئی تھی وہ بھی پانامہ کی گرد نےدھندلی کردی ہے۔

بعد ادب عرض ہے کہ اچھی طرز حکومت میں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حاکم وقت کی ہوتی ہے مگر یہاں خود حکمران محفوظ نہیں۔ اچھی طرز حکومت وہ ہے جہاں تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات میسر ہو لیکن یہاں غیرمعیاری تعلیم اورعلاج کے لیےبھاری فیس کے ساتھ سفارش بھی درکار ہے۔ جہاں لوگوں کو سستا انصاف ملتا ہوں اسے گڈگورننس کہتے ہیں نہ کہ اسے جہاں وکیل کے ساتھ جج بھی کرنا پڑے۔ جان کی آماں پاؤں تو عرض کروں کہ اچھی طرز حکومت میں پانچ لاکھ اکیانوے ہزار چھ سو اکیاون روپیہ ماہوار تنخواہ فیصلے سنانے کے لیے لیےجاتے ہیں نہ کہ محفوظ رکھنے کے لیے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے