ووٹر اور موٹر

2013 کے انتخابات میں  چترال ٹو کے  میرے جیسے وہ ووٹرز  انتہائی کنفیوز تھے جو ہر قسم کی سیاسی جماعتوں سے متنفر ہوکر شخصی ووٹ دینے کے حامی تھے ۔  ہر سیاسی پارٹی کے جلسوں میں شرکت کرنے والے ان ووٹروں کے پاس امیدوار کو جانچنے کااگر کوئی طریقہ بچا تھا تو وہ  فن خطابت تھی جس کے ذریعے ان جیسوں کو اپنی طرف کھینچا جاسکتا تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ حسین احمد جیسے مبلع تھے جو مذہب کا زینہ لیکر آسانی سے لوگوں کے دماغ میں چڑھتا تھا تو عبدالطیف اپنی مدلل گفتگو سے  نوجوانوں کے دل جیتنے کے ساتھ بڑوں کو بھی زیر کرچکے تھے۔  اور پھر پیپلز پارٹی کے شعلہ بیان مقرر سردار حسین تھے جو بھٹو کو زندہ کرکے اسٹیج پر اپنے ساتھ بٹھاکر ان کی ز بانی  زرداری کو مسیحائے وقت قرار دے رہے تھے۔  اورساتھ ساتھ مخالفین اور خصوصا حاجی غلام محمد پر اس طرح  برس جاتا کہ سننے والوں کو حاجی صاحب کے معصوم چہرے کے پیچھے ایک خائن ایم پی اے نظر آجاتا۔  اور کون نہیں جانتا کہ یہ معرکہ شاجی نے اپنے نام کرلیا ۔ یہ سب اسلئے یاد آئے کہ جب اس وقت کے سب سے مضبوط امیدوار اور سابق ایم پی اے الحاج غلام محمد، اور پیپلز پارٹی کے سب سے بڑے مخالف اور جیالوں کو ایک آنکھ نہ بھانے والے  کو پی پی پی والوں نے آج ویلکم پارٹی دیا۔

مذکورہ انتخابات کے دوران شخصیت کی بنیاد پر ووٹ دینے والے چونکہ تقریبا ہر قسم کے جلسوں میں شرکت کرتے تھے اسلیے ہمیں ہر جلسے کی جھلکیاں رہ رہ کر یاد آتی ہے ۔ شاجی نے ایک بار جوش خطابت میں کہا تھا "مجھے ووٹ دوگے تو دنیا ملے گی۔ علماء کو ووٹ دوگے تو آخرت ملے گی مگر غلام محمد کو ووٹ دوگے تو دنیا ملے گی نہ آخیرت” اور پھر یوں ہو کہ عوام نے اپنے  دنیا و اخیرت کی فکر نہ کرتے ہوئے حاجی صاحب کو جتوایا تو شاجی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک بار پھر اسٹیج سج گیا۔ مگر اب کی بار شاجی کے ساتھ ساتھ پی پی پی کے دوسرے ورکرز بھی مقرر بن چکے تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ مقابلہ ووٹر اور موٹر کا ہے اور انشا اللہ موٹرز جیالوں پر اثر انداز نہیں ہوسکیں گے۔ ایک دوسرے صاحب نے اسی جلسے میں کہا کہ ووٹ اور نوٹ کے مقابلے میں جیت عوام کی ہوگی کہ ہم بکاو مال نہیں اور کسی کے نوٹ ہمیں مرعوب نہیں کرسکتے ۔

شاجی ایک بار پھر میدان میں اترے تھے اور  اس بار کہہ گئے "اللہ کا شکر ہے کبھی ٹھیکہ داروں سے نسبت نہیں رہی اور انشا اللہ نہ رہے گی۔ نہ ٹھیکہ لیا ہے نہ لونگا  اور نہ ٹھیکہ دار مافیا کو جیتنے دونگا کہ یہ چترال کی عزت کا سوال ہے” ۔ اور پھر شاجی جیت گیے۔ مگر آج پھر "ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں  کچھ” کے مصداق حاجی و شاجی ساتھ  ایک ہی وژن لیکر ایک ہی مقصد کے لیے کاندھے سے کاندھا  ملاکر نظر آئے تو عقل والوں کو جھٹکا لگنا ہی تھا۔

کہانی سچی ہے اسلیے بہت سوں کو اچھی نہیں لگے گی  پر ضمیر والوں کو ایک بار سوچنا پڑے گا  کہ پی پی پی جیسے لبرل پارٹی کو مذہبی جماعتوں کی طرز پر ایک چیز کو ایک سال حلال اور دوسرے سال حرام قرار دینے کی رو ش اپنانا کچھ بھاتا نہیں۔ جو کل نوٹ پر ووٹ کو ترجیج دینے کی ٹھان چکے تھے وہ آج نوٹ سے کیسے مرعوب ہوئے ؟ کہیں ایسا تونہیں کہ بقول یوسفی کڑک نوٹوں کی سوندھی سے خوشبو نے آپ کو بھی مرعوب گیا ۔سوال تو یہ بھی ہے کہ چار سال پہلے  جو حاجی  صاحب بقول آپ کے  ٹھیکدار مافیا کا سرعنہ ، کرپشن کے گرو اور ووٹوں کے خریدار تھے ان حاجی صاحب  کو بمع نوٹ آج اپنی پہلووں میں سُلاکر آپ کیا کمال کرنے والے ہیں ذرا  ہم بھی تو جانیں۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے