لواری ٹنل ۔اہمیت و اثرات

میرے دوست نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’آرام و سکون تو ہم چترالیوں کی قسمت میں لکھا ہی کہاں ہے۔ہم تو پیدا ہی رسوا ہو نے کے لیے ہوئے ہیں۔ بس زندگی کے بوجھ اٹھائے موت و حیات کی کشمکش میں رہیں گے اور ایک دن اسی طرح کی کیس قطار میں دم توڑ دیں گے۔” اس سے پہلے کہ میں اپنے دوست کی ہاں میں ہاں ملاتاقریب کھڑے ایک معمر شخص یوں گو یا ہوا”’’بیٹا! اگر تم اس قطار کے متبادل ذرائع پر حقیقت پسندانہ غور کرتے تو ہر گز ایسا نہیں کہتے۔ لواری ٹاپ کی دلخراش اذیتیں، قدم قدم پر چھپی موت اور احباب و اغیار کے رویوں کا نظارہ وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے آپ کی اور میری سوچ میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ایک ہی مقام پر ایک ہی وقت میں اور ایک ہی مقصد کی خاطر قطار میں ہونے کے باؤجود تم اسے اذیت ناک سمجھتے ہو اور میں بار گاہ ایزدی میں سجدہ شکر بجا لارہا ہوں۔یہ دو گھنٹے تمہارے جسم و جان پر گراں گذر رہے ہیں جبکہ ضعیف العمری کے باوجود یہ لمحات میرے لیے باعث لطف و مسرت ہیں۔”انہوں نے اپنی بات جاری رکھی’’ بیٹا اللہ کا ہم پر بڑا احسان ہے ۔شکر ادا کرواس رب کریم کا جس نے ہمیں ان مشکلات سے نجات دلادی۔ آپ نوجوانوں سے گلہ بھی نہیں ہے آزاد پنچھی قید و بند کی صعو بتوں کا اندازہ تو نہیں لگا سکتا نا۔۔۔‘‘ معمر شخص اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن چترال سکاؤٹس کے جوان نے مسافروں سے گاڑیوں میں سوار ہونے کی درخواست کی اور ہم مثبت سوچ کا وعدہ کرکے مہربان بزرگ سے الگ ہوئے۔ یہ گذشتہ ہفتے کا ذکر ہے جب چترالیوں کا قافلہ دیر کی طرف سے لواری ٹنل کے عین سامنے کھڑا تھا اور ہم سے دو گھنٹوں کا انتظار برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ گاڑی میں بیٹھے بھی اس باریش شخص کی باتیں ذہن میں گردش کرنے لگیں اور میں اس زاویے سے سوچنے لگا۔ واقعات کی کڑیاں یوں بنتے چلی گئیں۔ واقعی میں اس ٹنل کی اہمیت کا اندازہ ہر کوئی نہیں لگا سکتا ۔ سوائے ان لوگوں کے جنہیں اس کی ٹنل کے نہ ہونے نے زخم دیے ہیں۔ اس کی اہمیت اس نوجوان سے پوچھیے جسے انٹرویو کے لیے پشاور ، اسلام آباد یا کراچی پہنچنا تھا مگر نہ پہنچ سکا۔ اس ما ں سے پوچھیے جس کے لخت جگر کی لاش گذشتہ ایک مہینے سے برفانی تودے کے نیچے دبی رہی یا پھر اس بہن کو معلوم ہے جو کئی مہینے اکلوتے بھائی کا انتظار کرنے کے بعد اس کی لاش ہی دیکھ سکی۔ کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جو ذہن میں آتے ہی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، چہرے پر مسکراہٹ و متانت سجائےممتاز زرین بھی تو انہی بے رحم راستوں میں زندگی کی بازی ہارے تھے۔ اس کےوالدین نے بھی دوسرےوالدین کی طرح اپنے بیٹے کی مستقبل کے حوالے سے کتنے خواب بنے ہونگے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایسی داستانیں ہر محلہ ہر گاؤں اورہر علاقے میں ملتے ہیں۔ ان گنت گھرانے ہیں جن کے چولہے ان پر اسرار پہاڑیوں نے بجھا دیے وہ بھی باپ تھا جس کے بوڑھے کندھوں پر سات افراد کی کفالت کی ذمہ داری تھی۔ بچے معیاری تعلیمی اداروں میں علم کی پیاس بجھا رہے تھے۔پیٹ کاٹ کر تعلیم دینا جیسے محاورے کتابوں میں بھلے لگتے ہیں لیکن حقیقت میں بہت سخت اور جان جوکھوں والا کا م ہوتے ہیں۔ لیکن57سال کی عمر میں لواری ٹاپ کے برفانی تودوں کا شکار بننے تک اس نے یہ فرض بھی بخوبی نبھایا۔ اس ظالم پہاڑی نے خاندان کا واحد زریعہ آمدن چھینتے وقت ان معصوموں کے مستقبل کا بالکل بھی خیال نہیں کیا۔ یہ بھی کیا پاگل پن ہے کہ سینکڑوں معصوموں اور خواتین کے قاتل پہاڑی سے رحم کی اُمید رکھی جارہی ہے۔ اس نے تو محسن جیسے نوجوانوں کو بھی نہیں بخشا جو نام کے ہی نہیں بلکہ واقعی میں اس پہاڑی کے محسن تھے کئی دنوں سے تند و تیز ہواؤں اور ژالہ باری کی پروا کیےبغیر کندھے پر بندوق لٹکائے اس کی حفاظت پر مامور تھے۔مجھے وہ بیٹا بھی یاد ہےجس کے والد آبائی قبرستان میں دفن کرنے کی وصیت کرکے پشاور میں انتقال کر گئے۔ مرحوم کی جسد خاکی کو چترال پہنچانے کا جو جان کٹھن مرحلہ طے کیا گیاان مصائب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان پر لکھا جا سکتا ہے۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ گاڑی ٹنل میں داخل ہوئی اور بے اختیار جہانگیر جگر یاد آئے،’’ تان بدلان گانی تام اوا تا موژین بغاتام۔۔۔‘‘ 29منٹ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ چترال 47سال پہلے آزاد نہیں ہوا تھا۔ بلکہ آج ہوا ہے۔ آج صحیح معنوں میں ہم معاشی وجعرا فیائی طور پر آزاد ہوئے ہیں۔ چھ مہینوں تک محصور رہنے ولا ضلع آج دنیا کے ساتھ متصل نظر آیا۔ چترالی کی قسمت بدلنے والے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کئی افراد نے حصہ لیا لیکن جاگیر داروں کی صف سے نکل کر غریبوں کے ساتھ کھڑے ہونے والابھٹو یقیناًسب سے بازی لے جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاگیرداری نظام سے حد درجہ نفرت کرنے والی قوم بھٹو پر جانیں نچھاور کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتےہیں۔ بھٹو کے بعد جس شخص کو یہ کریڈت جاتا ہے وہ پرویز مشرف ہے۔ بحیثیت پاکستانی یا جمہوریت پسند جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے اور متفقہ آئین کو روندنے والے مشرف سے اختلاف کے باؤجود اس کی چترال دوستی اور لواری ٹنل کی تکمیل میں کردارسے چشم پوشی یقیناًاحسان فراموشی بلکہ نمک حرامی ہوگی۔ کون ہوگا جو اس موقع پر لواری ٹنل کی خاطر ہر فورم پر آواز اٹھانے والے چترال کے سابق ایم این اے جناب عبد الاکبر چترالی کو بھولے !۔ علاوہ ان محسنین کے ، چترال سے تعلق رکھنے والے ہرسیاست دان، عالم ، تجار برادری، طلباء، وکلاء، الغرض ہر فرد نے اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ لواری ٹنل چترال کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوگی۔ چترال کے قیمتی قدرتی ذخائر تک رسائی ممکن ہوگی تو دوسری طرف ملک کے ساتھ مکمل رابطہ رہنے کی وجہ سے عام لوگوں کی زند گی پر بھی خوشنما اثرات مرتب ہونگے۔ یہی لواری ٹنل ہے جو سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو چترال کی راہ دکھائے گی اگر ایسا ہوا تو یقینا یہ ضلع ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا۔ تاہم ایک پہلو جسے عموماً صرف نظر کیا جارہا ہے ۔یہ ہے کہ یہ ترقی اور تبدیلی اپنے ساتھ بے شمار ایسی چیزیں لائے گی جو چترالی معاشرے اور عوام کیلئے زہر قاتل ثابت ہونگے۔ وہ کیا عوامل ہیں اور انکا سد ّباب کسطرح کیا جاسکتا ہے اس کیلئے آپ کو اگلے ہفتے تک انتظار کرنا ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email

7 تبصرے

  1. Very well written shams. You picked a serious and important issue. Thumbs up

  2. Mukhtar Ali

    Very balanced analysis of the Lawari Tunnel impacts, also great acknowledgements

  3. naila mashroof

    a very well written article noor shamsudin

  4. Abdulwali

    Well written Nooor thumbs up

  5. لالہ زار

    Zabardast really enjoyed so brutally honest as usual. I took it as a demo as You are not that cockeyed optimist, eagerly looking for the next one and Expect more and more from you on this

  6. Shah Izat mir

    Well articulated and a smooth transition at each paragraph.
    Nice effort

  7. Sonia Akhter

    !Good piece of writing Noorshams, keep it up

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے