زندہ یا مردہ عوام

سوشل میڈیا پہ چند تصاویر نظروں سے گزری کہ عوام بیلچہ و کدال اٹھائے راستہ صاف کررہے ہیں اور پھر چند عدد بڑی گاڑیوں پر بھاری مشینری رکھ کر کھینج رہے ہیں۔ مذید گہرائی میں گیا تو پتہ چلا کہ علاقہ ریشن کو ملنے والی جنریٹر جو گذشتہ ڈیڑھ مہینے سے راستے کی تنگی کی وجہہ سے گرین لشٹ کے مقام پر پڑی تھی اٹھاکر مطلوبہ جگہہ پر رکھدی گیی۔ یہ الگ بات کہ متعلقہ محکمے شندور کی رنگا رنگیوں سے فارع ہونے کے بعد "ٹیکنیکی” مراحل طے کرکے عوام کوبجلی دینے کی زحمت کرینگے بھی یا نہیں۔

محکمہ پیڈو کی نااہلی۔ رینٹل پاؤر ہاؤس کا معاملہ حل نہ ہوسکا

یاد رہے کہ دو سال پہلے تباہ کن سیلاب نے ریشن بجلی گھر کا ستیاناس کرکے پورے تحصیل مستوج کو تاریکیوں میں ڈٰبویا تھا۔ سیلاب کے ایک سال تک عوام مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف منہ کرکے کھڑے رہے اور پھر حسب روایت ناامید ہوکر چھ مئی 2016 کو تحریک بحالی ریشن بجلی گھر کی بنیاد رکھی۔ کئی دنوں تک جلسہ جلوس نے آخر کار دھرنے اور علامتی بھوک ہڑتال کا روپ دھار لیا۔ اس دوراں تقریبا ہر جماعت کے سیاسی نوٹنکی اپنے اپنے انداز سے عوام کو اُلو بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی لیکن تحریک کے قائدیں ڈتے رہے۔  کچھ نوٹنکیوں نے تو حد ہی کردی یعنی حکومت میں ہوکر یا پھرحکومت کا حصہ ہوکر حکومت کے خلاف دھرنوں میں شامل ہوئے۔ بحرحال موسمی مینڈکوں کی جالوں سے بچنے والی عوام رمضان کی دوسری یا تیسری تاریخ کو بیوروکریسی کے ہتھے چڑھ گیا اور یوں ایک ماہ کے اندر بجلی مہیا ہونے کی نوید لیکر اپنے گھروں کو لوٹ گیے۔ دوسری طرف بیوروکریسی نے اگے سب اچھا ہے کی رپورٹ دیکر عوام کے دل ودماع سے رفوچکر ہوگئے۔ اور یوں ایک سال تک نہ تحریک نے حرکت کی نہ بیوروکریسی نے وعدہ وفا کیا۔

پھر اچانک ایک سال بعد ایک جنریٹر ریشن پہنچادی گئی مگر راستے کی تنگی کا بہانہ بناکر اسے منزل سے تین کلومیٹر دور اتاردیا گیا۔ پھر نہ متعلقہ محکمے کا پتہ چلا اور نہ سیاسی نوٹنکیوں کا۔

حالات کے مارے عوام بیلچہ و کدال اٹھائے میدان میں اتر ائے جنریٹر مطلوبہ جگہ تک پہنچادی اور اب ٹیوب لائٹ کے نچے بیٹھ کر متعلقہ محکمے کا انتظار کررہے ہیں کہ کب "ٹکنیکی” کام سرانجام دیکر ان کے لائٹس روشن کئے جائینگے۔

عوام کواس بہادری پر شاباش دینےکے ساتھ ساتھ ایک گزارش ہے کہ کل الیکشنز کے دوران ہم ہی ہونگے جو ان نوٹنکیوں کے پیچے دم ہلاتے پھر رہے ہونگے جو گزشتہ دوسالوں سے ہمیں تاریکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ راستہ بنانا اور گاڑی  کو کھینچ کر مطلوبہ جگہ پہنچانا اخلاقی طور پر اچھی بات ہوسکتی ہے مگر قانونی طور پر صحیح نہیں۔ بہترتھا کہ ہم ان کو استعمال کرتے جو خدمت کے نام پر ہمارے ووٹ بٹور چکے ہیں یا بٹورنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خدارا اب بھی وقت ہے جب تک ان کی گردنوں اور ہمارے ہاتھوں کے درمیاں فاصلہ رہے گا ہم اسی طرح خوار ہوتے رہیں گے کبھی سڑک بنائیں گے کبھی پانی کے چینلز، اور کبھی مشینریوں کو دھکے دیتے ہونگے۔

اب فیصلہ اپ نے کرنا ہے خوار ہونا ہے یا خوار کرنا ہے۔ گاڑی کھینچنی ہے یا عوامی نمائندوں کے کان۔  فیصلہ آپ ہی کریں۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے