لواری ٹنل ۔اہمیت و اثرات ۔ آخری قسط

لواری ٹنل جیسا کہ پہلی قسط میں عرض کیا تھا   فاصلے گھٹانے کے ساتھ ساتھ  زندگیاں  بھی بچاتا  ہے ۔ اب آپ کولواری ٹاپ کے دونوں اطراف کے  پُرخطر پچاس سے زیادہ موڑکاٹنے اور نہ  پھسلتی ہوئی گاڑیوں کو دھکا دینے کی ضرورت ہے۔اب آپ  سردی سے ٹھہٹرتے ہوئے معصوم بچے پر نظر پڑتے ہی آبدیدہ ہونگے اور نہ اپنا کوٹ اُتار کر بزرگوں کو پہنانے کی نوبت آئے گی۔ اب تو بس نہ ٹاپ کی ٹھنڈی ہوا ہے اور نہ سردی۔ شکر الحمد اللہ بولیں اور صرف  پینتیس منٹ میں ڈھائی گھنٹے کا فاصلہ طے کریں  ۔ مگر  ۔۔ارے نہیں ۔ اتنی جلدی بھی کیا۔۔۔رکیے ذرا ۔۔۔اور یاد رہے کہ زندگی  میں کچھ ملے تو کھونے  کا ڈر بھی تو ہوتا ہے۔ہم لواری ٹنل بننے کے بعد کے مضمرات سے انکار نہیں کرسکتے ۔

لواری ٹنل بننے کے بعد اور خصوصاً پاکستان چائینا اقتصادی راہداری کا متبادل راستہ یہاں سے گزرنے کی صورت میں معدومیت کے خطرے سے دوچار چترال کی چند علاقائی  زبانیں شاید اپنی شناخت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھیں گی۔ چترالی ثقافت جو پہلے ہی بیرونی یلغار کا شکا ر ہے  خاکم بدہن ان  متوقع تبدیلیوں کے مقابلے کا متحمل نہیں ہوسکتی ۔  مذید براں ہماری روایات ، منفرد معاشرتی نظام ، رہن سہن اور رسومات   کے  حوالے سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے  اور کھو اقدار  یعنی یگانت، لسانی و مذہبی ہم اہنگی جو موجودہ دور میں دنیا کے دوسرے علاقوں میں  تقریباًناپید ہے کہیں چترال سے بھی بوریا بستر باندھنے پر مجبور نہ ہو جائے۔  ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ رسو م رواج چترال کے دامن میں صرف اسی لیے مخفوظ تھے کہ کسی اور کلچر  کے ساتھ ہمارے ٹھوس روابط نہیں تھے۔ گویا دنیا سے جغرافیائی طور پر علحٰیدگی ہمارے مخصوص ثقافت کی ضمانت تھی  لیکن لواری سرنگ بنے اور اسی راستے کا اقتصادی راہدری میں ایک اہم  کردار ہونے کے بعد ، اپنی منفرد ثقافت کو بچانے کے لیے ہمیں کافی زیادہ جتن  کی ضرورت پڑے گی ۔  میں خدانخواستہ ترقی و تبدیلی کے ثمرات سے انکار نہیں کررہا بلکہ یہ  تبدیلی اپنے ساتھ جو  چیلنچز لائے گی ان سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار ہونے کی ترعیب دے رہا ہوں۔

کون نہیں جانتا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ملک کے دوسرے حصوں سے چار مہینے کٹے رہنے کے باوجود حوّا کی کتنی بیٹیاں غیروں کے رحم کرم پر چھوڑ کر لاش بنے کے بعد کندھوں پر اٹھا کر لائے جاچکے ہیں اور ان منفرد ازدواجی  رشتوں کی وجہہ سے ہمیں کیسے کیسے القابات مل رہے ہیں ۔ اب یہ خوف بھی ستائے جارہی ہے کہ سال  بھر نچلی اضلاع کے ساتھ رابطہ بنے رہنے کے بعد ہمارے یہی کرتوت جاری رہے تو ہمیں نجانے کیا کیا نام دیا جائے گا۔  کیا ہماری مخصوص چترالی شرافت جو اس حوالے سے زنگ الود ہوچکی ہے  کوبچا پایئں گے یا نہیں ۔ جواب اپنے دل سے پوچھیے گا۔

ایک اور خدشہ یہ ہے کہ لواری ٹنل بنے کے بعد ہم گلوبل ویلیج کا حصہ بننے جارہے ہیں مگر  کیا ہم اس قابل ہیں کہ گلوبل ویلج کے بااثر شہری  بن سکیں۔ کہیں ہم اپنی دھرتی پر دوسروں کے مزارع نہ بن جائیں!!! یہ وہ نکتہ ہے جس پر بار بار سوچنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی چترال ، دروش ، گرم چشمہ  اور کوراغ کے تجارتی مراکز پر کون قابض ہے کیا یہ بھی لکھنا پڑے گا؟؟؟ اگر یہی صورت جاری رہی اور ہم خوبصورت گھر بنانے کے واسطے کاربار کے لیے موزوں زمینیں بیجتے رہیں تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے ۔ اگر ایسا ہوا تواقتصادی راہداری کا متبادل  مرکزی  سڑک بھی یہاں سے گزر جائے تو ہماری زندگیوں پر خوشگوار اثرات مرتب نہیں کرسکے گی۔

کیا یہ بھی لکھنا پڑے گا کہ لواری ٹنل کے متوقع منفی اثرات سے مخفوظ  رہنے کے لیے لایحۂ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسا منظم پروگرام جس میں سول سوسا ئٹی سے لیکر ممبر ومحراب کی نمائندگی ہوجو لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ ترقی و تبدیلی ازحد ضروری مگر ہر چیز کی قیمت پر نہیں ۔ اس حوالے سے علاقائی و ادبی تنظیموں  کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنی ثقافت اور زبان کو محفوظ اور زندہ رکھنے اور فروع دینے کی خاطر مل کر کام کریں ۔ یہ وقت ہے کہ ہمارے سیاستدان منفی سیاست ترک کرکے چترال کی انفرادیت قائم ودائم رکھنے کے لیے آگے آئیں ورنہ "تمھاری داستاں  تک نہ ہوگی داستانوں میں ”  

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے