میرا ووٹ تعلیم کو

جب سےہوش سنبھالا ہے گھر میں بڑوں کو صرف تیر کے نشان پر ٹھپہ لگاتے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کرتے دیکھا ہے، یہی نہیں قبلہ گاہ اور بڑے بھائی کو بے نظیر کی شہادت پر زارو قطار روتے اور ملازمتی مجبوریوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بلا تفریق رنگ و نسل ومسلک "تیر کا نشان جیت کا نشان” اور "جئے بھٹو” کا نعرہ ٔمستانہ بلند کرتے ہوئے ببانگ دہل پیپلز پارٹی کی حمایت مرمٹنے کے لیے تیار پایا ہے اور یہ کہنے میں کیوں عار محسوس کروں کہ بڑوں کی دیکھا دیکھی جب سے ووٹ دینے کا حق ملا وہ حق سوائے گزشتہ انتخابات کے پیپلز پارٹی کے لیے ہی استعمال کیا۔ سیاسی بلوغت حاصل کرنے اور سیاسیات کا طالب علم بننے کے بعد سیاسی جماعتوں کے تاریخی پس منظر، حالات اور آنکھوں دیکھے کرتوت کے بعد گزشتہ ایک دہائی سے الحمد اللہ "سیاسی الحاد” کا شکار ہوکر کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت سے بقائمی ہوش حواس توبہ کرکے شخصی بنیادوں پر ووٹ دینے کا تہیہ کرچکا ہوں۔ آسان سا فارمولہ ہے کہ جو بندہ اچھا لگے اسے ووٹ دو ۔باقی وہ کرپشن کرے یا دیانتداری اس کی مرضی میں، پوچھوں گا نہ ووٹ دینے کا احسان جتاوں گا اور نہ اپنے لیےکچھ فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرونگا کیونکہ ووٹ صرف محبت کی وجہ سے دیا ہوتاہے اور محبت بے عرض ہوتی ہے۔ لیکن اس بار الیکشن میں مذکورہ بالا فارمولا بھی لاگو نہیں ہوسکتا کیونکہ اس بار ایک سے زیادہ لوگ دل کے قریب ہیں۔
جیسا کہ عبدالولی خان عابد صاحب شروع سے پسند ہے اور آج سے پندرہ سال پہلے ڈگری کالج بونی میں سہولیات کی عدم موجودگی پر احتجاج کرتے ہوئے ایف آئی آر ہوکر پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو فیس لیے بعیر ہمارے ساتھ عدالت آکھڑے ہونے والے عابد صاحب کا احسان اس کی کرشماتی شخصیت کی محبت سے بھی بڑھ کر ہے۔ ایک نظر عابد صاحب کی شخصیت سے اٹھاکر ادھر ادھر دیکھتا ہوں تو اسرار صبور بحیثیت علاقہ دوست اور غریب پرور شخصیت کے میرے "قیمتی ووٹ” کے واحد حقدارلگتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے کزن فیاض خان نے میرے کراچی میں دوسالہ زمانہ طالب علمی کے دوران ہرتپتی دھوپ میں سائباں کا کردار ادا کیا۔ ہر مشکل وقت پر خان کا نمبر ملاتا اور مسائل دفع ہوجاتے اور اب وہی جان سے عزیز دوست بھی صبور کو ووٹ دینے کی درخواست کرچکے ہیں۔ اور ان کو انکار کرنا بھی ممکن نہیں۔ عابد صاحب کے احسانات اور صبور کی دوستی کے باوجود حاجی غلام محمد صاحب کی نفیس شخصیت اور اور ان کی ملنساری بھی دل کو بھاتی ہے۔ بخدا حاجی صاحب کے سیاسی پس منظر سےلاکھ اختلافات کے باوجود ان کا مشفقانہ رویہ، پرکشش اخلاق، بے غرض مسکراہٹ اور ہر موقع پر اخلاص سے پیش آنے کی عادت صرف اس کو ووٹ دینے پر مجبور کرتی ہے۔
خوب سے خوب تر کی جستجو مجھے مولانا ہدایت الرحمن کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتی ہے تو وہ بھی عام شخصیت نہیں۔ بلکہ ایک سلجھے ہوئے عالم ہیں اور چند ایک سالوں میں چترال کی امن کوبرقرار رکھنے کی خاطر علماء کے کردار کو دیکھ کر اندر سے آواز آتی ہے کہ اگر سکھ شانتی سے جینا ہے تو ووٹ پر حق صرف علماء کا ہونا چاہیے۔
قومی اسمبلی کے لیے حق رائے دہی استعمال کرنے کے حوالے سے بھی مجھے کچھ کم پریشانی نہیں۔ اب چند دن پہلے ہی لواری ٹنل کراس کرتے ہوئے بھٹو ، مشرف کے علاوہ کوئی علاقائی لیڈر کا چہرہ نظروں میں آیا تو وہ مولانا عبدالاکبر ہی کا تھا۔ لواری ٹنل کے ساتھ ساتھ چترالیوں کے حقوق کے لیے بہار و خزان کسی کو سینہ تان کر کھڑے دیکھا ہے تو وہ صرف مولانا صاحب ہی ہیں۔ اس لیے دل و دماغ مولانا کی حمایت پر ابھار رہے ہیں۔ توشہزادہ افتخارالدین کا مؤدبانہ انداز، چترال کے لیےکچھ کرنے کی لگن، اور گزشتہ سالوں کی کارکردگی ہر کسی کے دل میں اس کی محبت پیدا کرسکتا ہے اور سینے میں دل میرا بھی ہے۔ رہی بات لطیف صاحب کی تو یونیورسٹی کے زمانے سے ان کا انداز خطابت اپنا گرویدہ بنایا ہوا ہے اور یہی بات تھی کہ پہلی بار خاندانی سیاسی وابستگی سے نکل کر ان کے حق میں اپنا ووٹ ایک بار پہلے بھی استعمال کرچکا ہوں۔
سلیم خان کی حمایت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ ابن الوقت نہیں بلکہ حقیقی جیالے ہیں اور چونکہ اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے پی پی پی کی پسندیدگی خون میں سرایئت کرچکی ہے۔ اس لیے بھی سلیم خان کو سائڈ لائن کرنا ممکن نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بہت کوششوں کے باوجود بھٹوازم شخصی ووٹ دینے کی راہ میں ایک دو بار رکاوٹ بھی بن چکی ہے۔ اب خود سوچ لیں کہ میں کسے ووٹ دوں؟
عابد کے احسان، غلام محمد کی شائستگی ، مولانا کی امن پسندگی یا پھر صبور کے کردار کو؟ اور عبد الاکبر کی خدمات، افتخار کی شفقت، لطیف کی لطافت یا سلیم خان کے بھٹوازم کو؟
کئی دنوں کی سوچ بچار کے بعد میں نے درمیان کا راستہ نکا لیا ہے ۔ اب ان میں سے جو امیدوار مجھ سے فیس بک یا ای میل پر رابطہ کرکے یہ وعدہ کرلے کہ وہ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ماہانہ چند ایک طالب علموں کے سکول فیس ادا کرکےچترال میں تعلیم کو سپورٹ کرے گا۔ میرا ووٹ اسی کا ہوگا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے تمام نمائندے علم دوست ہیں اور ہر کوئی ایسا کرنے کے لیے تیار ہونگے۔ لہذا بولی لگائی جاتی ہے کہ ای میل یا فیس بک پر رابطہ کریں کہ اب مختلف اسکولوں کےبچے/بچیوں کی فیس دینے کی مد میں اپنے پورے دور اقتدار میں ماہانہ کتنے روپے خرچ کریں گے۔ جس نے بھی زیادہ رقم دینے کا وعدہ کیا اس کا نام ان ہی سطور میں لکھ کرکھلم کھلا اس کو ووٹ دینے کا اعلان کیا جائے گا۔ اور ہاں کسی بھی نمائندے کی طرف سے رابطہ نہ کرنے کی صورت میں، میں ووٹ کاسٹ نہ کرنے کی قسم کھاتا ہوں۔ کیونکہ رہنما علم دوست نہ ہو توووٹ کا حق اور اہمیت جائےتیل لینے۔
آپ سب قارئیں سے بھی درخواست ہے کہ آئیں تعلیم کا ساتھ دیں۔ یہ پیغام شئیر کریں اور ایک وعدہ اور تحریری ثبوت لیکر اپنا ووٹ تعلیم کو دیں۔ وہ ثبوت میرے ساتھ شیئر کریں یا فیس بک پر اپلوڈ کریں اور ووٹ ایمانداری سے اسے دیں جو زیادہ بچوں کو سپورٹ کرنے کا وعدہ کرے۔
عزیزو دوستوں ! سیاسی جماعتوں کو بہت ووٹ دیے ہم نے اب اگر ایک سو دوست اس قسم کا تہیہ کرکے تعلیم کو ووٹ دینے کا عزم کرتے ہیں تو ہم سینکڑوں بچوں کو پانچ سال تک تعلیم دلوا سکتے ہیں اور تعلیم آگئی تو سارے اندھیرے دور ہونگے کہ دائمی خوشحالی، تبدیلی،روشنی اور ترقی صرف تعلیم سے ممکن ہے۔
نوٹ:نمائندوں کو فیس بک یا ایم میل میں رابطہ کرنے کے لیے کہنے کی واحد وجہہ ثبوت رکھنا ہے کہ بعد میں وعدہ خلافی کرنے کی صورت میں وہ اسکرین شوٹ ہونگے اور میرا زہریلا قلم۔ لہذا وعدہ کیجیے تو سوچ کر۔ ۔۔
noor.shamsuddin@outlook.com

Print Friendly, PDF & Email