مردم شماری۔ ہماری شناخت کے تحفظ کا ذریعہ

ستر برسوں میں پاکستان میں اس سے قبل مردم وخانہ شماری پانچ بار منعقد ہوچکی ہے چھٹی مردم وخانہ شماری کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ یہ بات شائد کسی کی سمجھ میں نہیں آئے کہ ہمارے ملک میں مردم شماری سے اتنی بیزاری کیوں دکھائی جارہی ہے۔ پوری دنیا میں عوام کی اصل تعداد تواتر سے معلوم کی جاتی ہے، پھر مائیکرو انداز میں معلومات اکھٹی کی جاتی ہیں کہ ہماری آبادی میں نوجوانوں کی تعداد کتنی ہے، اُس میں کتنے فیصد پڑھے لکھے ہیں اور کیا پڑھ لکھ رہے ہیں۔ اسی طرح بوڑھوں کی کیا صورتحال ہے۔ خواتین اور بچوں کا ڈیٹا کیا ہے یہ اور اس طرح کی معلومات صرف اور صرف مردم شماری کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

اندازہ کیجئے سابقہ مردم شماری 1998ء میں کی گئی اور 19 سال بعد جب دوبارہ مردم شماری کا پروگرام بنایا جارہاہے تو وہ بھی خوشی خوشی نہیں بلکہ بحالت مجبوری۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ اگر زور دے کر اور اصرار سے اس کا حکم نہیں دیتی تو شائد اس سال بھی اس کا کوئی امکان نہیں تھااور بُری خبر یہ کہ اس بار مردم شماری تو بہرحال منعقد کی جائے گی لیکن اِس دوران صرف گھر اور افراد ہی گنے جائیں گے ۔ اس میں فارم ث کو خارج کیا جاچکاہے جس میں افراد کا پیشہ، تعلیم وغیرہ کا ڈیٹا حاصل ہونا تھا۔ یعنی اس سال کے آخر میں ہمیں اتنا ہی معلوم ہوگا کہ پاکستان میں کتنے گھر ہیں اور ان گھروں میں کتنے مرد اور خواتین رہائش پزیر ہیں اور بے گھر کتنے ہیں، یہ افراد کیا کرتے ہیں کتنے پڑھے لکھے ہیں اور اس بارے میں کیا منصوبہ بندی کرنی چاہئے یہ سب مخفی ہی رہیں گے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو لیکن مذکورہ خبر کی تاحال کوئی تردید متعلقہ اداروں کی طرف سے نہیں کی گئی ہے تو خدشہ ہےکہ ایسا ہی ہوگا۔

اب ہمارے بڑے ہی بتاسکیں گے کہ خدا خدا کرکے مردم شماری کرانے کا سامان کرنے کے باوجود بھی ہمارے پاس ہماری آبادی کی مکمل معلومات نہیں آئیں گی تو کیا اس کے لیے بھی کسی غیر ملکی مداخلت کا انتظار کیا جائے گا اور کوئی غیر ملکی ادارہ سروے کرکے ہمیں یہ معلومات دے گا یا ہمیں خود کچھ کرنا ہوگا۔

پاکستان میں دیگر معلومات کو چھوڑئیے، صرف زبانوں کی صورتحال پر غور کیجئے۔ حکومت پاکستان کی دفتری زبان انگلش ہے۔ اُردو قومی زبان ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد چونکہ اُردو کو دفتری زبان بنانے میں مشکلات تھیں لہٰذا قرار پایا کہ پندرہ برسوں تک انگلش سے کام چلایا جائے اور اِن پندرہ برسوں کے دوران اُردو کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ دفتری زبان کا روپ دھار لے وہ پندرہ برس ابھی تک مکمل نہیں ہوئے اور آج ستر برس بعد بھی ہماری دفتری زبان انگلش ہے۔ چند ماہ پیشتر سپریم کورٹ آف پاکستان میں کسی نے درخواست دی تو عدالت نے فوراً اُردو کو دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا فیصلہ دیا ،یاد رہے فاضل جج نے مذکورہ فیصلہ بھی انگلش میں لکھا تھا۔

یہ تھی مرکز کی صورتحال۔ اب صوبوں کی طرف آئیں تو وہاں بھی ایک آدھ زبان ہی سرکاری کھاتے میں تسلیم شدہ ہے۔ صوبہ سندھ میں 14 زبانیں بولی جارہی ہیں لیکن سرکار کے علم میں صرف سندھی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں بولی جانے والی دیگر9 زبانوں میں سے صرف پنجابی کو شرفِ قبولیت حاصل ہے۔ پنجاب کےبہت بڑے حصے سرائیکی زبان بولی جاتی ہے لیکن یہ زبان پر وہ گمنامی کاشکار ہے۔ بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں بھی وہی صورتحال ہے۔ خیبر پختونخوا میں 28 زبانیں بولی جارہی ہیں لیکن پشتو ہی قابل عزت ہے۔

خیبرپختونخوا کی سابقہ قوم پرست حکومت نے پشتو کو ترقی دینے کے سلسلے میں پشتو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی کوشش کی جس کی مخالفت ہوئی تو مخالفین کے منہ بند کرانے کیلئے پشتو کیساتھ صوبے میں بولی جانے والی دیگر چار زبانوں جیسے ہندکو، کھوار، انڈس کوہستانی اور سرائیکی کو بھی پرائمری ایجوکیشن کا حصہ بنانے کی منظوری دی گئی۔ اِن زبانوں پر مزید کام کیلئے صوبائی اسمبلی میں بل پاس کرایا گیا، جس کے تحت ایک اتھارٹی بنانے کا فیصلہ ہوا ۔ اس کے بعد کیا ہوا کہ صوبے میں بقول ڈاکٹر فیضی”تبدیلی” آگئی اور دھرنے شروع ہوئے اور جو کام ہوا تھا آج بھی وہیں کا وہیں پڑا ہے۔ مردم شماری فارم میں پوچھا جاتاہے کہ آپ کونسی زبان بولتے ہیں۔؟ اور آپشن میں اُردو۔ پشتو۔ سندھی۔ پنجابی۔بلوچی جیسی بڑی علاقائی زبانیں دستیاب ہوتی ہیں، علاقائی سطح پر بڑی زبانوں کے آخر میں ایک اور کالم کا اضافہ کرتے ہیں جس کا ٹائٹل "دیگر” ہے۔ ہماری تمام زبانیں اسی "دیگر” کے نیچے درج ہونی ہیں۔ ہزاروں لوگوں کی بولی کو دیگر زبان کہنا کہاں کا انصاف ہے، یہ سلسلہ کیوں نہیں رُک رہا، یہ کوئی نہیں بتاسکتا۔ اُسی دیگر کے خانے کا نام "مادری زبان” لکھ دیا جائے تو ملک وقوم کا کیا نقصان ہوگا؟ میں کھوار زبان کی خدمت بھی اُردو میں کررہاہوں، جس کا ایک ثبوت یہی مضمون ہے تو کیا میں اُردو کے ساتھ دشمنی کررہا ہوں؟ اگر کسی زبان کا نام لینے کا مطلب اُردو دشمنی ہے تو یہ ہمارے دفتروں، عدالت اور پارلیمان کی زبان کیوں نہیں ہے؟ یہ اور اسی طرح کے کئی سوالات ہیں جن کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ چترال میں اکثریت کے ذہن میں یہ بات ہے چترال میں کھوار زبان ہے بس۔ حالانکہ چترال کے جنوبی حصے میں پلولہ، دمیلی اور گوارباتی زبانیں ازمنہ قدیم سے بولی جارہی ہیں۔ پلولہ شینا زبانوں کے گروپ میں شامل ہے۔ گوارباتی بولنے والے ڈیورنڈ لائن کے اُس پار یعنی افغان علاقے میں بھی رہتے ہیں۔ دمیلی زبان کے حوالے تاریخِ چترال سے جابجا ملتے ہیں۔ اگر کھوار بولنا اُنکی مجبوری یا شوق ہے تو انہیں چترالی کہلانے کیلئے کھوار کو "مادری زبان” لکھوانا لازمی نہیں ہے۔ گوبور، لنگور بٹ اور بڈول کاڑ جیسے غیر معروف علاقوں میں نورستانی زبانوں کی شاخ سے کمویری اور کاٹی جنہیں شیخانی بھی کہتے ہیں بولی جاتی ہیں۔ لٹکوہ میں یدغا زبان بولی جاتی ہے۔ یہ زبان پیر شاہ ناصر خسرو کے ساتھ اس علاقے میں آ بسنے والوں کی تھی۔ مڈک لشٹ میں فارسی کی ایک قدیم بولی تاحال بولی جاتی ہے جسے چترال میں مدک لشٹی ہی کہتے ہیں۔ بیریر، رمبور اور بمبوریت میں کلاشہ جیسی قدیم زبان آج تک قائم ہے، لیکن بولنے والوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم رہ گئی ہے۔ یہی زبان اُرچون کی وادی میں بھی بولی جارہی ہے، اُرچون میں البتہ کیلاش مذہب کا کوئی پیروکار ابھی نہیں بچا لیکن کلاشہ زبان کا نام بدل کر "اُرچونی وار” رکھنے کی وجہ سے اس وادی میں یہ زبان اب بھی قائم ہے۔ کلاشہ زبان کو کافروں کی زبان قرار دینا اتنا خطرناک ہوگیا ہے کہ یہ لوگ مذہب کی تبدیلی کے ساتھ زبان کو تبدیل کرکے کھوار ابولنے لگتے ہیں، اور ایک لمحے کے لیے نہیں سوچتے کہ مسلمان بننے کیلئے کھوار بولنا لازمی نہیں ہے۔ محرک کچھ بھی ہو۔ ہمارے ملک اور علاقوں کا تنوع ہم سے چھن رہاہے۔پاکستانی بننے کیلئے اُردو، پختونخوا کا شہری کہلانے کیلئے پشتواور چترالی بننے کیلئے کھوار کی ضمانت غیر ضروری طورپر ضروری ٹھہر گئی ہےہمیں اس خوبصورت ملک میں بسنے والے تمام لسانی گروپوں کو اپنی شناخت قائم رکھنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ اپنے اپنے علاقوں میں نچلی سطح پر اس طرح کی مہم شروع کرنی چاہئے۔ چترال میں اِن چھوٹی کمیونٹیز میں مردم وخانہ شماری کرنے والا اہلکار کھوار بولنے والا ہو تو اُس پر لازم ہے کہ وہ اُن لوگوں کی مرضی کے مطابق فارم بھردیں۔ کسی کو زبردستی کھوار میں شامل نہ کیا جائے۔ یہی گزارش ہے سوات، دیر وغیرہ میں مردم شماری کرنے والے اہلکاروں سے ہے ۔ وہ یا تو پشتو کیلئے اصرار کرتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کوہستانی لکھواتے ہیں، کوہستانی کسی ایک زبان کا نہیں ۔ ان علاقوں کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ خود اِن علاقوں کے لوگوں کو بھی نہیں پتہ کہ اُنکی زبان کا نام کیا ہے۔ سب کے سب پشتو بولتے ہیں اور اصرار سے اُن کی مادری زبان پوچھی جائے تو کوہستانی کا نام لیتے ہیں۔

سوات کے علاقے بحرین میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے پہلے بہت فخر سے خود کو پشتو بولنے والا متعارف کروایا، تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ اسے اپنی زبان کے بارے میں پہلے سے علم تھا لیکن بوجوہ وہ چھپارہا تھا۔ اس کی وجہ بڑی زبان والوں کی جانب سے چھوٹی قومیتوں کو کمتر سمجھنے کی روش ہے۔ ہم کالاش قبیلے کے فرد سے ملتے ہی لازمی اسے دعوت دیتے ہیں۔ ہمیں غیر مسلم پڑوسی برداشت نہیں۔ پھر اپنی زبان سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں کہ غیرزبان کا فرد قبول نہیں۔ عہد کرنا ہوگا کہ تنوع بچانے کیلئے ہم سب کردار اداکریں گے کیونکہ پاکستان کی بقاء اس کے تنوع کا تحفظ ہے اور اسے تحفظ ہم نے ہی دینا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے