کرکٹ ہیرو سے وزیر اعظم بننے تک

افراط و تفریط ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے۔ اپنے پسندیدہ لیڈر کے اوصاف کو ہم بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور نا پسندیدہ شخص میں ہمیں کوئی خوبی نظر نہیں آتی بلکہ اس کے نقائص اس قدر زیادہ لگتے ہیں کہ اسے ہمارے لیے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ افراط و تفریط اور یہ عدم توازن ہمارے جذباتی پن کی وجہ سے ہے۔ آئیے آج وزیر اعظم عمران خان کی خوبیوں اور خامیوں کا غیر جذباتی جائزہ لیں۔ کرکٹ ہیرو سے وزیر اعظم بننے تک عمران خان نے اپنی ایمانداری اور اصول پسندی کا تاثر ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔

پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنتے ہی انھوں نے اپنے سے عمر میں بڑے خالہ زاد بھائی ماجد خان کو ٹیم سے نکال کر اپنی اصول پسندی کی دھاک بٹھا دی تھی۔

اسی اصول پسندی کا تسلسل چینی انکوائری سکینڈل میں جہانگیر ترین، مونس الہی اور اپنے دیگر ساتھیوں کے نام دینے میں نظر آتا ہے۔ عبد العلیم خان، سبطین خان اور اسد عمر کو بھی عمران خان وزارتوں سے ہٹا کر دوبارہ واپس لائے ہیں۔ 18 ماہ کی حکومت میں ان کی ایمانداری پر کوئی سوال نہیں اٹھا اور انھوں نے بھی مشکوک سودوں سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھا ہے۔ ریاستی اداروں کی طرف سے پیپلز پارٹی اور بعد میں ن لیگ پر حب الوطنی کے حوالے سے سوالات اٹھتے تھے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ریاست کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر تحفظات تھے۔ جواباً ریاستی اداروں کو ماضی کی ان دو بڑی جماعتوں کی قیادت کے خیالات اور بالخصوص انڈیا، امریکہ، افغانستان اور عرب کے حوالے سے پالیسیوں پر تحفظات تھے۔

عمران خان اس حوالے سے ریاستی اداروں کے ساتھ ایک صفحے پر ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے ریاستی ادارے جو بھی اقدامات اٹھا رہے ہیں عمران خان ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ انڈیا کے حوالے سے بھی عمران خان اور پاکستانی ادارے ایک ہی سوچ رکھتے ہیں۔ عمران خان نے ماضی کے سیاسی رہنماؤں کی طرح امریکی قیادت سے بھی ذاتی تعلقات کی پینگیں نہیں بڑھائیں۔ ان مثالوں کی روشنی میں عمران خان ابھی تک حب الوطنی کے ملکی معیار کے عین مطابق چل رہے ہیں۔ عام کھلاڑیوں کے بر عکس عمران خان شروع ہی سے سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ان کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی یہ بتاتے ہیں کہ عمران ہجوم کو دیکھ کر فوراً بتا دیتے ہیں کہ اس میں کتنا جوش و جذبہ ہے۔

عمران خان اپنے سیاسی تاثر کا خود خیال رکھتے ہیں اس لیے سوشل میڈیا ٹیمز کو اپنے مخالفوں کا تیا پانچہ کرنے اور اپنی حمایت کے لیے دلائل مہیا کرنے کا فریضہ بھی وہ خود ہی انجام دیتے ہیں۔ گویا بیانیے کی جنگ میں ابھی تک انھوں نے اپنے مخالفوں کو شکست دے رکھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنھوں نے اپنے وزرا پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔ ہر وزیر کے بارے میں رپورٹس وہ خود دیکھتے ہیں اور جس کسی کی غلطی ہو اسے ڈانتے، سمجھاتے اور بعض اوقات ناراض بھی ہوتے ہیں۔ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے زیادہ تر وزرا اس لیے ناراض ہیں کہ وہ ان سرکاری سمریوں کو منظور نہیں کرتے جن کے بارے میں بعد میں مشکوک سوال اٹھ سکتے ہیں۔ عمران رولز اینڈ ریگولیشنز کا مکمل خیال رکھتے ہیں۔

واقفان حال بتاتے ہیں کہ اکیلے رہنے سے عمران خان میں جو کمزوریاں پیدا ہو گئیں تھیں وہ بشریٰ عمران سے شادی کے بعد کافی حد تک دور ہو گئی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے گھر کے ماحول کو مذہبی اور روحانی بنا دیا ہے۔ روحانی سلاسل کے لوگوں کو ماہ رمضان میں عالم عرب کی اعلیٰ ترین کھجوروں کے خوبصورت تحائف بھیجے گئے جن پر بیگم صاحبہ اور وزیر اعظم کے نام درج تھے۔ بیگم بشریٰ عمران آزاد خیال اور غیر مذہبی وزرا کی سرگرمیوں سے بھی وزیر اعظم کو با خبر رکھتی ہیں۔

وزیر اعظم کی کرپشن کے خلاف جنگ اور پھر اس میں کسی مصلحت سے کام نہ لینا ان کی شخصیت اور شہرت کی پہچان بن چکی ہے۔ اسی طرح غریبوں سے ان کی محبت اور نام نہاد اشرافیہ سے ان کی نفرت بھی ان کی شخصیت کی مثبت علامتوں میں سے ہے۔ غریبوں کے لیے کیش احساس پروگرام اور ان کے لیے مسلسل ہمدردی کے بول ان کے دل کی آواز لگتے ہیں۔ اوور سیز پاکستانیوں کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کا جب بھی ذکر ہوتا ہے ان کے لہجے میں ہمدردی کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

عمران خان اب کرشماتی ہیرو کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان بھی ہیں۔ اس لیے ان کی شخصی اور حکومتی خامیوں کا احاطہ کرنا بھی ضروری ہے۔ بطور وزیر اعظم پاکستان عمران خان معیشت کے پہیے کو چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے نہ ہی وہ تاجروں اور صنعت کاروں کو یہ اعتماد دے سکے ہیں کہ ملک کی فضا سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہے۔ یہی معاملہ طرز حکمرانی کا بھی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلی کا انتخاب نہ تو پاکستان کے اداروں کو پسند آیا اور نہ ہی اسے کسی بھی میرٹ پر پرکھا جا سکتا ہے۔ کابینہ پر کڑی نگرانی کے باوجود وزیر اعظم وہ نگاہ دور بین نہیں رکھتے جو جس کا کام اسی کو ساجھے کے تحت وزرا میں ذمہ داریاں تقسیم کر سکیں۔ اسد عمر کو وزیر خزانہ لگایا پھر ہٹا دیا، چودھری فواد کو وزیر اطلاعات لگایا پھر فردوس عاشق کو لے آئے۔ اب نئی ٹیم آگئی ہے۔ وہ پنجاب کے کئی چیف سیکرٹری اور آئی جی تبدیل کر چکے ہیں مگر اصلاح احوال ہونے کو نہیں آرہی۔

لاک ڈاؤن کے حوالے سے جزبز نے یہ ظاہر کیا کہ ان میں قوت فیصلہ کی کمی ہے۔ اسی طرح کرپشن اور احتساب کے ایجنڈے پر عمل کر کے عمران خان نے اپنے سینے پر سیاسی تمغے تو سجا لیے ہیں لیکن قومی اتفاق رائے کو شدید نقصان پہنچایا۔ سرحدی دباؤ اور معاشی بحران کے اس دور میں سیاسی اتحاد کی ضرورت تھی مگر عمران خان کے احتساب نے سیاسی قوتوں میں نفاق اور کشیدگی پیدا کی ہے۔ حزب مخالف کو یہ کہنے کا جائز موقع مل گیا ہے کہ ان سے انتقامی سلوک ہو رہا ہے اس لیے وہ حکومت سے تعاون کیسے کر سکتے ہیں؟

وزیر اعظم عمران خان تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے نوجوان حامیوں اور اوور سیز ساتھیوں کو توقع تھی کہ وہ عدالتی، انتظامی اور سماجی اصلاحات کا آغاز کریں گے۔ لیکن تاحال اس سمت میں ابتدائی پیش رفت تک بھی نہیں ہو سکی۔ نہ پٹواری اور تھانہ کلچر ختم ہوا، نہ رشوت اور سرخ فیتہ ختم کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ زراعت کا برا حال ہے۔ ترقیاتی بجٹ ختم کر دیے گئے ہیں۔ میڈیا 70 سال کے دوران کبھی اتنے بُرے حال میں گرفتار نہیں ہوا جتنے برے حال میں اب ہے۔ لگتا یوں ہے کہ عمران خان امور مملکت کی گہری گتھیوں کو ایک کھلاڑی کے چوکے یا چھکے کے ذریعے سلجھانا چاہتے ہیں مگر معیشت اور حکمرانی کا جال اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس کی گانٹھوں کو ٹھنڈے دل، گہری سوچ اور تدبر سے ہی کھولنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم میں اپنے تاثر کو ٹھیک رکھنے اور اپنی سیاسی برتری قائم رکھنے کا جذبہ بہ درجہ اتم موجود ہے لیکن پوری قوم کے بیڑے کو اجتماعی طور پر پار لگانے کی صلاحیت پر ان کے ناقدین سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ گورننس گہرا کام ہے، اس کے لیے زیادہ گہرے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو

Print Friendly, PDF & Email