چترال کی تاریخ میں شاہ شمس کی اسلامی دعوت کا تذکرہ (قسط 3)

شاہ شمس کے چوتھے رفیق کار کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ان کا چراغ بردار یعنی ان کے عرفانی مجلس کا اہم رکن تھا۔ عرف عام میں اسے شیخ بتایا جاتا ہے۔ جیسا کہ میرزا افضل واحد بیگ صاحب کی روایت کے مطابق اویر کلاں کے خانقاہ کا ذمہ دار بھی یہی شیخ تھا۔بعض نے اس کا نام عاشق ایوب بتایا۔بہرحال اس بہت ہی اہم اور تاریخی اسلامی مرکز "خانقاہ” کو شیخ قبائل نے کہاں تک قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ہم نے اس مقالے میں دوسرے نمبر پر جو اقتباس نقل کیا ہے اس کے مطابق شاہ شمس کے وفد میں ممبران کی کل تعداد شمس کو ملا کے سات تھی جس کی تائید چنارا والی روایت سے ہوتی ہےجو کہ ہمارا پانچواں حوالہ ہےیعنی ان کے ساتھ سید شہاب الدین اور سید کمال الدین بھی شامل تھے جو کہ ان کے ساتھ ہی یہاں سے ہجرت کر گئے ہوں ۔البتہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وفد کا ایک رکن خذرہ والے "خانقاہ” کی نگرانی پر مامور بھی رہ چکا ہومذید تحقیق بھی کی جاسکتی ہے۔

اب ہم آخر میں ان بزرگوں کے نام کے ساتھ یا نام کے طور پر استعمال ہونے والے اصطلاحات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ اصل صورتحال تک پہنچنے میں مدد مل سکے۔

لفظ "شاہ” کی تفہیم لغت میں شاہ کے معنی سردار جو بادشاہ اور لشکر کے سردار کے ساتھ بھی استعمال ہوا ہےاور اسی سے ہی شہزادہ کا لفظ وجود میں آیا ہے۔ دور جدید کے ایک ایرانی محقق جنہوں نے تاریخ پر بہت سارا کام کیا ہےاس کی یوں ہی وضاحت کی ہے۔

آٹھویں صدی ہجری ، چودھویں صدی عیسوی میں شاہ کی اصطلاح کو "علی” یا "ولی” کے ساتھ ملا کر بہت سے صوفی شیوخ کے ناموں کا سابقہ یا لاحقہ بنایا گیاجس سے خاندان علیؓ کے ساتھ  وفاداری اور علیؓ کی روحانی ہدایت اور ولایت کے اعتراف کی عکاسی ہوتی ہے۔جیسے  شاہ محمد رضاء ولی ، شاہ بریا ولی، شاہ ولیسی محمد، شاہ جنید، شاہ برہان ولی ، شاہ مجنون  وغیرہ بہت سارے  درویش بزرگوں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

دوسری شخصیت جسے تیموری شہزادوں میں سے بتایا جاتا ہےکو بابا ایوب کا نام دیا جاتاہے۔ ایوب کو بابا کیوں کہا جاتا ہےیہ بھی ذہن کو اپیل کرتا ہے یعنی تحقیق طلب لفظ ہے  لیکن اس کی بھی ادبی وضاحت پائی جاتی ہے۔ لغوی معنی بڑا عالم ، گرجا کا سردار، پوپ بچہ کا بابا کہنا، کبھی کبھار باپ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ محمد دین فوق نے اپنی تاریخ میں بابا کے لفظ کی یوں تشریح کی ہے۔ کشمیر کی تاریخوں میں اکثر مشایخ و سادات کے ساتھ بابا کالفظ درج ہے۔ جو ان کی بزرگی پر دلادت کرتی ہے آگے حضرت مخدوم علی ہجویری کے حوالے سے لکھا ہے کہ”بابا شیخ کلاں را گوہند” یعنی بڑے شیخ کو بابا کہا جاتا ہے ۔

مرحوم وزیر تعلیم وقار احمد سے جب میں نے بابا ایوب کے شہزادہ ہونے کے بارے میں اظہار خیال کرنے کو کہا تو انہوں نے کچھ واقعات بیان کرنے کے علاوہ ایک دلیل یہ دیا کہ موصوف (بابا ایوب)  اپنے بیٹوں کے لیے ماہ طاق(ہلال  یک شبہ)اور شاہ نو (نیا بادشاہ)کے جو نام تجویز کئے ہیں وہ بھی ان کے  اپنے ملک میں بادشاہت کے اختتام کے بعد دوبارہ موجودہ اس ملک میں ابتداء ہونے کی طرح ایک امید کی کرن کے طور پر لیے گئے ہیں۔ جس کی خوشخبری ان کے پیرو مرشد شاہ شمس کی زبانی ان کو ملی تھی۔ اس امید اور دعا اور نیز شاہ بریاولی دونوں بزرگوں کی دعاوں کی بدولت بابا ایوب کی نسل میں اس ملک کی بادشاہت منتقل ہوگئی۔ جو یہاں اس سے قبل رئیسوں کی حکومت تھی۔

شیخ کے معانی و مطالب: لغت کے اعتبار سے ایک قسم کی گھاس، واحدشیخۃ، الشیخ من الرجّال، کاموں میں کوشش کرنے والا، محتاط، چوکنا، شیخ استاد، عالم قوم کے سردار، اور بڑے  اور اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کی نظر میں علم ، فضیلت اور مرتبہ وغیرہ کے لحاظ سے بڑا ہو۔

ڈاکٹر فرہاد دفتری کے مطابق شیخ "عمر رسیدہ، بزرگ سال اور رئیس ِ قبیلہ یعنی قبیلہ کے سردار یا کوئی مذہبی عہدہ دار، یہ لقب خاص طور پر خود مختار صوفی، مرشد، یا روحانی پیشواء کیلیے استعمال ہوا ہے”۔

چوتھی شخصیت ملائے روم ہیں، لفظ ملّائے کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ صیغہ مبالغہ کاہے۔ یعنی بہت بھرا ہوا، بسیار پر، مراداس سے وہ شخص جو علم سے بہت بھرا ہوا  اور پر ہو۔ یعنی بہت پڑھا ہوا، بڑا عالم، فارسی کے استعمال میں اکثر یہ لفظ ھمزہ آخر کے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ان کی اولادنے علوم اسلامیہ کی ترویج میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

اس مقالہ کی تلخیص اور نتیجہ اپنے تعارفی پیراگراف میں تحریر کئے ہوئے معروضات کی روشنی میں دوبارہ تاریخی وعلمی رہنمائی کیلیے میں اہل قلم حضرات پر چھوڑ دیتا ہوں تاکہ ہم ان بزرگوں کی کاوشوں کو تحریری صورت میں مستقبل کی نسلوں کیلیےمحفوظ کرسکیں جو ہمارے پاس صدری و زبانی معلومات کی صورت میں بطور امانت موجود ہیں۔ ہم نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے۔ مباداایسا نہ ہو کہ زمانہ تاریخِ چترال کے اس اہم باب کو آئندہ نسلوں کے ذہنوں سےہی مفقود کردے۔

زندہ قومیں اپنی تاریخ اور تاریخی آثار کو زندہ رکھتی ہیں۔ اپنی شناخت کے ذرائع کو خواہ وہ عمارت کی صورت میں ہوں یا علمی مراکز کی صورت میں مساجد ہو یا خانقاہ قومی یا اسلامی اثاثے کی  صورت میں انہیں تحریر یا تعمیری صورت میں باقی رہنا چاہئے۔ ورنہ تاریخ کے یہ روشن باب ایک دن افسانے کی صورت اختیار کرلیں گے۔

نام    نیک    رفتگاں    ضایع    مکن

تا    عباند    نام     نیکت    روزگار

Print Friendly, PDF & Email