سیاست کا شوق ہے تو ریٹائرمنٹ کے بعد

سنہ 1890 اکتوبر کا مہینہ تھا۔ امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے کاؤنٹی ڈینیسن کی رہائشی خاتون ڈاؤڈ جون نے ایک بچے کو جنم دیا۔ اس بچے کا نام ڈوائٹ ڈی ایسن ہوور Dwight.D.Eisenhower رکھا گیا۔ اس بچے کو بنیادی تعلیم کینساس میں دلائی۔ اس کے بعد اسے امریکہ کے ملٹری اکیڈمی U.S Military Academy (BS) میں داخلہ دلوایا گیا۔ 1915 میں اس نے امریکی افواج میں کمیشن حاصل کی۔ یہ پنسلوینیا کی ڈچ نسل سے تھا۔اس کا خاندان بنیاد پرست اور انتہائی مذہبی تھا۔ مگر ایسن ہوور مذہب میں بہت کم ہی دلچسپی لیتا تھا۔ فوج میں ملازمت اختیار کرتے ہی 1915 کے اواخر میں اس کی شادی ایک خاتون سے ہوئی۔ جس کا نام میری ڈاؤڈ تھا۔

 پہلی جنگ عظیم کا اب آغاز ہو چکا تھا کہ اس نے اپنی ہائی کمان سے یورپ جانے کی استدعا کی۔ اس کی درخواست  مسترد ہوئی اور اسے فوجی ٹینکوں کا ایک دستہ سونپا گیا۔ اچھی کارکردگی دکھائی اور ترقی حاصل کرتا ہوا بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر جا پہنچا۔ یوں وقت گزرتا گیا اور دوسرے ہی دہائی میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا۔ 1941 میں شمالی افریقہ اور سسلی میں ایسن ہوور نے فتوحات حاصل کیں۔جس کے بعد فرانس اور جرمنی میں ایکسیس پاورز کو شکست دی۔

 1945-1946 کے درمیان دوسری جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی اور ایسن ہوور امریکہ کا ایک عظیم اورفاتح جرنیل بن چکا تھا۔ عوام میں خاصی پذیرائی حاصل کی تھی اور صدی کا مقبول ترین جرنیل بن گیا تھا۔ مگر اب امریکہ جنگ میں کافی نقصان اٹھا چکا تھا اور امریکہ کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ امریکی افواج کو بھی بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچ چکا تھا۔ جنگ بندی کے فورا بعد ایسن ہوور کو امریکی افواج کا سربراہ یعنی سپاہ سالار مقرر کیا گیا۔ جنگ عظیم سے تھکے جوان کشمکش کا شکار تھے۔ فوج کو ناقابل تلافی نقصان کا بھی سامنا تھا۔ اب اس عظیم جرنیل نے امریکی افواج کو دوبارہ کھڑا کیا۔ اپنا لوہا منوایا۔ عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

 اس کی خدمات اور قابلیت کی وجہ سے اسے NATO افواج کا پہلا سپریم کمانڈر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔1951 سے لے کر 1952 تک اس عہدے پر براجمان رہے۔ پھر ریٹائر ہوئے۔ اب عوام کو اس عظیم فاتح سے بے پناہ محبت ہو گئی تھی۔ ریپبلکن پارٹی سینیٹر رابرٹ اے ٹافٹ کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کررہی تھی۔ مگر ریپبلکن پارٹی دم توڑ چکی تھی اور 1928 کے بعد حکومت حاصل کرنے میں یکسر ناکام رہی تھی۔ مگر اب ریپبلکنز کو لیڈر مل گیا تھا۔ ایسن ہوور بھی اس خارجہ پالیسی کی مخالفت کر رہا تھا۔ ریپبلکنز نے ڈیموکریٹس کے امیدوار Adlai Stevenson کے خلاف ایسن ہوور کو امریکی صدارت کا امیدوار چنا۔ بھاری مین ڈیٹ سے ایسن ہوور امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ Adlai Stevenson کو دو مرتبہ شکست دی اور یک بعد دیگر صدر بنے۔ سابق فوجی جرنیل اب امریکہ جیسی بڑی طاقت کا صدر بن گیاتھا۔ اس نے صدارت سنبھالتے ہی سب سے پہلے سوئیت یونین کی بڑھتی طاقت کو روکا۔ یہ دنیا کا پہلا غیر مسلم سربراہ تھا جس نے سوئز کرائسس میں مصر کی بھرپور حمایت کی اور فرانس’ اسرائیل اور برطانیہ کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے ان کی مصر میں دراندازی کو روکا۔ 1957 کے سیرئین کرائسس میں شام کو کمک اور مدد دی۔ 1958 میں لبنان کی مدد کے لئے 15000 کی تعداد پر مشتمل فوج بھیجی۔ یوں مسلمانوں پر احسانات کے تو انبار لگا ہی دئے تھے۔ مگر اسی اثناء روس نے سپوٹنک Sputinik نامی خلائی ادارے کی بنیاد رکھی تو ایسن ہوور نے فورا امریکہ میں NASA کا قیام عمل میں لایا۔ امریکہ کی عوام کی مزید سہولت کے لئے سوشل سیکیورٹی کا دائرہ وسیع کردیا۔ 1957 میں Civil Rights Act کو کانگریس میں پاس کروایا اور آرکنساس اور لٹل راک میں افواج بھیج کر ا س کے نفاذ کو ممکن بنایا۔ یوں سیگریگیشن بھی امریکی معاشرے سے ہمیشہ کے لئے ختم ہوئی۔

 یہ وہ قابل فخر جرنیل تھا جس نے امریکہ کا صدر بن کر امریکہ کی تقدیر ہی بدل ڈالی۔اس نے انٹرسٹیٹ ہائی وے سسٹم Interstate Highway System کی بنیاد رکھی’ جس سے امریکی قوم کو امریکہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے 64 دنوں کا سفر اب صرف دو دنوں میں طے ہونے لگا۔ جی ہاں یہ ایک سابق جرنیل تھا جو اب صدر بن چکا تھا۔ عوام خوش تھے کہ ہم نے ایسن ہوور کے انتخاب میں ذرا بھی غلطی نہیں کی۔ جتنا فائدہ اس کی فوج میں ملازمت کے دوران ملک کو پہنچا اور آئے روز کی فتوحات سے جس طرح امریکہ کا اور امریکی قوم کا سر فخر سے اونچا تھا’ اب صدر بننے کے بعد اس سے بھی کئی زیادہ تھا۔ اس نے روس کے ساتھ تجارتی و معاشی مقابلہ ضرور کیا مگر تعلقات بہت بہتر بنائے۔

 چین کی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کو تسلیم کیا اور چین کی حیثیت کو بھی پیپلز ریپبلک کے طور پر تسلیم کیا۔ جس سے دونوں ممالک کے مراسم بڑھے اور تجارت کو فروغ ملی۔ اس کی ماضی فوج میں گزری تھی۔ لیکن یہ صدر بھی بننے کے قابل تھا۔ تو میرا ایک سوال ہے کہ کیا پاکستان کا کوئی فوجی صدر نہیں بن سکتا؟ میرا تو خیال ہے کہ ضرور بن سکتا ہے۔ بلکہ یہاں تو اس سے قبل 4 مرتبہ جرنیلوں کی حکومت رہی ہے۔ مگر فرق کیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ یہ عظیم شخص جب فوج میں تھا تو اس نے جمہوری تقاضے پامال نہیں کئے۔ جمہور کو عزت بخشی۔ ملک کا وقار بلند کیا۔ عزت کے ساتھ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔تو اس کی جمہوریت دوستی اور قانون قدری کو عوام نے بھی دیکھا۔ اس پر اعتماد کیا اور اسے دو مرتبہ اپنا صدر بھی منتخب کیا۔ ہم بھی کرسکتے ہیں اپنے جرنیلوں کو۔ ہم بھی انہیں وزارت عظمی اور صدارت کی کرسی پر دل و جان سے بٹھا سکتے ہیں۔ مگر بیک ڈور سے نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ میں ایسن ہوور آۓ۔ سیاست کا شوق ہے تو ریٹائرمنٹ کے بعد ضرور آئیے گا’ ہم تسلیم کر لیں گے لیکن دوران ملازمت آئیں گے تو مزاحمت ہی ہو سکتی ہے’ حمایت نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email