ایک صوفیہ کے ہاتھ میں آب و آتش

صوفیا بڑے نازک شعور کے مالک ہوتے ہے اور وہ زندگی کے تصورات اور حالات و اقعات کو باریک بینی سے دیکھتے ہے وہ فطرت کے سارے عمل کو اتنی گہرائی سے دیکھ رہے ہوتے ہے جس طرح ایک سائنسداں  ایٹموں  کی خوردبینی دنیا کا مطالعہ کرتاہے۔ مختصراً یہ کہ حالت شعور میں جیتے ہے، انسانیت کیلئے محبت اور وحدت کے رہنما اصول متعین کرنے والے صوفیا اپنی زندگیوں میں بھی درویشانہ صفت اختیار کرکے اپنے دور کے اشرافیہ کو دنیا کی بے ثباتی اور بجائے لوگوں پر جبر مسلط کرنے ،اپنی ذات کا محاسبہ اور باطن پر دھیان دینے کا درس دیئے،  وہ مساوات اور انسانی خیر کے قائل تھے اور کسی بھی طرح کے ظلم و جبر اور جہالت کے خلاف تھے ۔ خوف و امید کی کشمکش میں معاشرے کے مختلف مکاتب فکر نےلوگوں پر اپنا اثرسوخ قائم رکھنے کیلئے ایسے فلسفے تشکیل دئیے، جن کو روحانی افیوں کا نام دیا جاسکتاہے۔ 

اگر چہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی معاشرہ میں توازن دو متضاد قوتوں کے ٹکراو سے ہی ممکن ہے۔ لیکن معاشرے کی روایتی سوچ سے ہٹ کر صوفیا نے الگ راستہ اختیار کیا ۔ ان ہی صوفیا میں ایک رابعہ بصری ؒہے ۔ جس کے متعلق یہ واقعہ مشہور ہے کہ “ ایک دفعہ رابعہ  ایک ہاتھ میں پانی اور ایک ہاتھ میں آگ لیئے راستے میں جارہی تھی۔ تو لوگوں نے سوال کیا کہ آپ ایک ہاتھ میں پانی اور ایک ہاتھ میں آگ لیے کہاں جارہی ہیں؟ جس پر رابعہ نے جواب دیا کہ میں جنت کو آگ لگانے اور دوزخ کی آگ بجھانے جارہی ہوں تاکہ لوگ  خدا کی عبادت جنت کی امید اور دوزخ کے خوف سے نہ کریں“ ۔

رابعہ  بصری ؒ کہتی تھی خدایا میں  تیری  ثنا اس لیے نہیں کرتی کہ مجھے جنت کی خواہش ہے یا دوزخ سے ڈر لگتا ہے بلکہ میں تجھ  سے محبت اور تیری  رفعت اور شوکت کے مد نظر کرتی ہوں ۔ “

صوفیا کرام کے ایسے بے شمار واقعات ہے جو محبت ، انسانیت اور باطنی پاکیزگی  پر زور دیتے ہیں  اور شعور کی تعلیم دیتے ہیں ۔میرا دعویٰ ہے کہ میں سچا ہوں جبکہ مجھ سے اختلاف کرنے والے کا خیال ہے وہ سچاہے۔  کیسے جانیں کہ کون سچا ہے۔ اعلی ٰجدیدیت کے اس دور میں وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم معاشرتی گروہوں اور اختلافات کو طول دینے کی بجائے محبت اور ترقی پر یقین رکھیں اور دل کے صوفی بن جائے۔

Print Friendly, PDF & Email